کیا ایسا ہوگا نیا ہندوستان؟

0

وطن عزیز ہندوستان شروع سے ہی امن پسند ملک مانا جاتا رہا ہے۔ عیسائیت کی تبلیغ کے ابتدائی دنوں میں ہی یہاں عیسائی آچکے تھے، اسلام کی روشنی اس سرزمین تک آپؐ کی زندگی میں ہی پہنچ چکی تھی، کیونکہ آپؐ کی وفات سے پہلے ہی یہاں چیرامن جمعہ مسجد کی تعمیر ہو چکی تھی مگر آج اسی ہندوستان میں نماز کی ادائیگی کا مقام تنازع کا ایشو بنا ہوا ہے، کرسمس کے موقع پر شرانگیزی کی جا رہی ہے، مسلمانوں کے قتل عام کی بات کھلم کھلا کہی جا رہی ہے اور امن پسند شخصیتوں کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے۔ رائے پور کے ’دھرم سنسد‘ میں مہاتما گاندھی کے لیے توہین آمیز الفاظ کا استعمال اور گوڈسے کی تعریف اس کی ایک اور مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہندوستان تبدیل ہو رہا ہے اور تبدیلی کے اس دور میں وہ اخلاقی اقدار پس پشت ڈال دیے جائیں گے جو ہندوستان کی پہچان ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ نئے ہندوستان میں کیا مہاتما گاندھی کی سوچ کے لیے گنجائش باقی نہیں رہنے دی جائے گی؟ بات اگر واقعی یہی ہے توپھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ نیا ہندوستان کیسا ہوگا؟ وہ کس کے خوابوں کا ہندوستان ہوگا؟ وہ کن لوگوں کا ہندوستان ہوگا؟ کیونکہ اگر مان لیا جاتا کہ ہندوستان سبھی ہندوستانیوں کا ہے تو پھر مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہری دوار کے ’دھرم سنسد‘ میں نہیں کہی جاتی اور جب اس طرح کی بات کہہ دی گئی تھی تو مناسب کارروائی کر کے یہ اشارہ دیا جاتا کہ تشدد کے لیے ہمارے ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اتراکھنڈ کے ہری دوار میں 17 سے 19 دسمبر، 2021 کو ہوئے ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کے حوالے سے کی گئیں مذموم باتوں پر کئی ممالک کے بڑے اخبارات اور پورٹلوں نے خبریں شائع کی ہیں۔ ہری دوار کی مقامی پولیس کا یہ بیان آیا تھا کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے مگر نظر رکھنا اور کارروائی کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔کیا یہ سمجھا جائے کہ ہری دوار کے ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے ملزمین کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ کرنے سے اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کے گروگرام میں کرسمس کے دعائیہ اجلاس کی مخالفت کی گئی، بی جے پی یُوا مورچہ کے قومی صدر اور رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ نے کہا کہ ’مسلمانوں اور عیسائیوں کو واپس ہندودھرم میں منتقل کرایا جانا چاہیے‘ ؟ گرچہ تیجسوی سوریہ نے ’بغیرشرط‘ بیان واپس لے لیا ہے مگر ان کے بیان سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جن لوگوں کے اذہان پراگندہ ہوئے ہوں گے، ان کی صفائی کون کرے گا؟ انہیں یہ کون بتائے گا کہ سیاست میں اس طرح کے بیانات دیے جاتے رہے ہیں اور ایسے بیانات سے سماجی تانا بانا بکھرتا رہا ہے، چنانچہ عام لوگوں کو لیڈروں کے بیانات کو سیاسی حصولیابیوں کے دائرے میں ہی دیکھنا چاہیے، سماجی بھائی چارے کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے؟
کورونا کی وجہ سے حالات بدلے ہیں، مفلسی میں اضافہ ہوا ہے، بے روزگاری بڑھی ہے۔ اسی کے ساتھ مہنگائی بڑھنے سے لوگوں میں تناؤ بڑھا ہے۔ ایسی صورت میں قتل عام کی باتوں اور مذموم بیانات کو کسی نے سنجیدگی سے لے لیا تو کیا ہوگا، یہ کسی ذی ہوش کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ وقت مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کی اہمیت بتانے کا تھا، یہ وقت یہ بتانے کا تھا کہ کسی ملک کے آگے بڑھنے کے لیے اس کا پرامن رہنا ضروری ہے اور اس کے امن و امان کے استحکام کی کوشش قول و عمل دونوں سطحوں پر کی جانی چاہیے جیسے مہاتما گاندھی نے کیا مگر آج حالت یہ ہے کہ چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں ہوئے ’دھرم سنسد‘ میں ایک طرف مہاتما گاندھی کے لیے توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا گیا تو دوسری طرف ناتھورام گوڈسے کی تعریف کی گئی، اس کے مذموم عمل کو صحیح ٹھہرایا گیا۔ گرچہ اس سلسلے میں پولیس نے کانگریس لیڈر پرمود دوبے کی شکایت پر معاملہ درج کر لیا ہے، یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ پولیس کارروائی کرے گی مگر اس کے باوجود یہ سوال جواب طلب ہے کہ مذموم بیانات کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، یہ بیانات ملک کی کیسی امیج بنائیں گے اور اس امیج کے ساتھ کیا ہندوستان کا وہ تشخص باقی رہ پائے گا جو عالمی برادری کو اس کی طرف متوجہ کرتا رہا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان باتوں کو وطن عزیز کے سبھی لوگ اہمیت دیتے ہیں؟ جواب ہے، نہیں! اگر سبھی لوگ اہمیت دیتے تو نہ کچھ لوگ ایک ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کے قتل عام کی بات کرتے اور نہ ہی دوسرے ’دھرم سنسد‘ میں مہاتما گاندھی کے لیے توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرتے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS