نئی دہلی،(ایجنسی)شمال مشرقی دہلی میں تشدد کے معاملے میں پولیس کی ‘عجیب غریب’ دلیل سے ناراض ایک نچلی عدالت نے اس کی سرزنش کی ہے۔ اگر پولیس کے دلائل پر یقین کیا جائے تو وہ خود 9 ماہ تک نہیں جانتی تھی کہ وہ شمال مشرقی دہلی کے فسادات سے متعلق ایک کیس کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے مزید اسی طرح کے دلائل بھی عدالت میں پیش کیے۔ ان دلائل پرحیرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت نے انہیں مضحکہ خیز بھی کہا ہے۔ عدالت نے دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے سرکاری وکیل کی سرزنش بھی کی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیس کو بغیر تفتیش کے خارج کر دیا گیا، جبکہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تفتیش شروع ہوتی ہے۔ جج نے دہلی پولیس کے لیے پیش ہونے والے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کا رویہ بھی “مضحکہ خیز” اور “غیر معقول” پایا۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ آئی او نے اپنی ا سٹیٹس رپورٹ میں”نادانستہ طور پر” اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ متعلقہ شخص کی شکایت کو دوسرے کیس سے جوڑ دیا گیا ہے اور یقینا الزامات کی تحقیقات جاری ہے۔
عدالت نے کہا “یہاں تک کہ اگر یہ دلیل مان لی جاتی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ آئی او/ایس ایچ او کو مارچ سے نومبر 2020 میں جواب داخل کرنے اور اس مدت کے دوران مجسٹریٹ کے سامنے سماعت میں شرکت کے باوجود۔ ، اسے یہ تک معلوم نہیں کہ یہ شکایت ایف آئی آر نمبر 109/20 کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے۔ موجودہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے وقت ہی اسے کسی طرح پتہ چلا کہ وہ پہلے ہی معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ عدالت کا یہ طنزیہ تبصرہ مجسٹریٹ کے حکم کے خلاف پولیس کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر آیا۔ مجسٹریٹ نے سلیم نامی شخص کی شکایت پر علیحدہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ نظرثانی درخواست ایڈووکیٹ محمود پراچہ کے ذریعے دائر کی گئی تھی۔ سلیم نے نامزد اورغیر نامزد ملزم کے خلاف شکایت درج کرائی تھی کہ انہوں نے 24 فروری 2020 کو فسادات کے دوران
اس پر حملہ کیا تھا۔ دوسری جانب پولیس نے بتایا کہ سلیم خود فسادات میں ملوث تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کہا کہ مجسٹریٹ کے حکم میں کچھ غلط نہیں ہے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نارتھ ایسٹ کو ہدایت دی کہ وہ سات دن کے اندر الگ ایف آئی آر درج کریں۔