کورونا سے نمٹنے کی پالیسی

0

عام حالات میں عام بیماریوں یا موسمی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے کئی بار ضلع سطح پر ہی کام کرنا کافی ہوتا ہے مگر وبا اور وہ بھی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دونوں کی پالیسی میں یکسانیت ہونی چاہیے، کیونکہ یہ سیاست کا موضوع نہیں۔ اس پر اگر سیاست ہوگی تو بہتوں کو زندگی گنوانی پڑے گی مگر کورونا متاثرین کی تعداد 3 کروڑ ہونے جا رہی ہے، اس سے اب تک 3 لاکھ سے زیادہ لوگ جانیں گنواں چکے ہیں، اس کے باوجود ایسا لگتا نہیں کہ اس سے نمٹنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کی پالیسی ایک ہے۔ حالت یہ ہے کہ ریاستیں بیرونی ممالک سے کورونا کی ویکسین منگانے کے لیے ٹینڈر نکال رہی ہیں۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کا یہ سوال کرنا بجا ہے کہ ’ٹیکوں کے لیے ریاستیں نکال رہی ہیں گلوبل ٹینڈر، کیا یہی ہے مرکز کی پالیسی؟‘ حالات کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے ہی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑکی سربراہی والی بینچ نے ضروری ادویہ، ویکسین اور آکسیجن سے متعلق معاملوں پر خود سے توجہ دے کر سنوائی کی۔ عدالت عظمیٰ کو مرکز نے بتایا کہ2021 تک ملک کی مکمل آبادی کی ٹیکہ کاری کی جائے گی۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے بینچ سے کہا کہ ’فائزر جیسی کمپنیوں سے مرکز کی بات چل رہی ہے۔ اگر یہ کامیاب رہتی ہے تو سال کے اختتام تک ٹیکہ کاری پورا کرنے کی متعینہ مدت بدل جائے گی۔‘امید رکھی جانی چاہیے کہ ایسا ہی ہو مگر اس امید کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مرکز اگر ویکسین حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے تو پھر ریاستوں کو اس کے حصول کی کوشش کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ سمجھی جائے کہ مرکز اور ریاست کے مابین اعتماد کا فقدان ہے یا اس کی وجہ کچھ اور سمجھی جائے؟ صورت حال اگر یہی رہے گی تو عام لوگوں کو اطمینان کیسے ہوگا؟
آکسیجن کی کمی اور بروقت علاج نہ ہوپانے کی وجہ سے اپنوں کو جانیں گنواتے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہیتھی کہ علاج و معالجے کی ذمہ داری ریاستوں کی ہے، مرکز کی نہیں ہے۔ مرکز نے ریاستوں کو یہ کہہ کر اطمینان دلانے کی کوشش نہیں کی کہ یہ عام وقت نہیں، کورونا عام بیماری نہیں، عالمی وبا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کا انتظام وہ خود کرے گا، وہ صرف اسپتالوں کا انتظام دیکھیں، زیادہ سہولتیں دینے اور زیادہ مریضوں کو بچانے کی کوشش کریں۔ ویکسین کی خریداری پر مرکز کے غیر واضح مؤقف کی وجہ سے ہی ریاستوں کو آگے آنا پڑا اور اس تاثر کو تقویت ملی کہ عالمی وبا کے دور میں بھی ریاستوں کو خود اپنے ہیلتھ کیئر سسٹم پر توجہ دینی ہوگی، کیونکہ اس سسٹم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری انہی کی ہے۔ ان حالات میں اس سوال کا اٹھنا فطری تھا کہ بات جب ایسی ہی ہے، پھر زراعت بھی تو ریاستوں کے تحت ہی آتی ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے مرکزی حکومت کیوں نئے قوانین لے آئی۔ مرکزی حکومت کو لگتا ہے کہ یہ کسانوں کی بہبود کا معاملہ ہے تو وہ بل واپس لینے کے لیے تیار نہیں لیکن کورونا تو زندگی کے لیے مہلک ہے اور اسی لیے یہ ملک کے سبھی لوگوں کے لیے باعث پریشانی بنی ہوئی ہے، پھر ویکسین کے معاملے میں مرکزی حکومت کی پالیسی ایسی کیوں رہی کہ ریاستوں کو خود آگے بڑھ کر اس کے حصول کی کوشش کرنی پڑی؟ اہم بات یہ ہے کہ یہ صورت حال اس وقت ہے جب یہ بات ناقابل فہم نہیں رہی ہے کہ کورونا سے لوگوں کو بچانا ہے تو ان کی ٹیکہ کاری ضروری ہے، کیونکہ ہمارے پاس ہیلتھ کیئر کا ایسا سسٹم نہیں ہے کہ کورونا متاثرین کی بڑی تعداد کا علاج بروقت اور بہتر طریقے سے کیا جا سکے۔پہلے تو لیڈران یہ کہہ بھی سکتے تھے کہ انہوں نے ہیلتھ کیئر سسٹم کے لیے یہ کردیا ہے، وہ کردیا ہے، عام لوگوں کو علاج و معالجے کے لیے کچھ سوچنا نہیں ہے مگر کورونا کی دوسری لہر نے سسٹم کی ’حقیقت ‘لوگوں کو سمجھا دی ہے، ان کو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اسپتال تو جانے دیجیے، ہمارے ملک میں ہنگامی حالات کے لائق قبرستان اور شمشان بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ندیوں میں لاشیں بہانے پر مجبور ہونا پڑا اور اس سے کچھ اور مسئلے، کچھ اور سوال پیدا ہوئے۔ مثلاً: لاشیں اگر یوں ہی ندیوں میں بہائی جاتی رہیں تو پھر ندیوں، بالخصوص گنگا کی صفائی مہم کیسے کامیاب ہوگی اور پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے میں کامیابی کیسے ملے گی؟ جو دن گزر گئے، انہیں بھلایا نہیں جانا چاہیے، کیونکہ وہ اچھے نہیں گزرے، وہ دن بہتوں کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔ ان دنوں کو اگر بھلا دیا جائے گا تو آگے کی تیاری کرنی مشکل ہوگی۔ مرکزی حکومت سب سے پہلے اپنے قول و عمل سے یہ تاثر دے کہ کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں اس کی اور ریاستوں کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے، کورونا کی لڑائی ریاستیں اس کی سرپرستی میں، اس کے بھرپور اور بلا امتیاز تعاون سے لڑ رہی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS