اترپردیش اسمبلی کیلئے سات مرحلوں میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلہ میں آج 11 اضلاع کی58 اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ہے۔ اب تک دستیاب ڈیٹا کے مطابق جاٹوں کی اکثریت والے ان حلقوں میں 50فیصد کے آس پاس ووٹ پڑے ہیں۔ دو دنوں بعدگوا، میں اور پھر مرحلہ وار اتراکھنڈ، منی پور، پنجاب اور اترپردیش میں6مرحلوں میں ووٹنگ ہونی ہے۔ انتخاب کے اس پہلے رائونڈ سے قبل جس طرح سے حجاب کے واقعہ کو ہوا دی گئی ہے اس سے یہ تاثر مل رہاہے کہ بی جے پی کا مکمل انحصار مذہبی پولرائزیشن پر ہے اور اس میں بی جے پی کامیاب بھی ہورہی ہے کیوں کہ اس حجاب تنازع کے گرد گھوم رہے مذہبی پولرائزیشن میں دانستہ یا غیردانستہ طور پر وہ طبقہ بھی اپنا حصہ ڈال رہاہے جو بی جے پی مخالف سمجھاجاتا ہے۔
ویسے بھی اب تک کے مختلف جائزے اور سروے یہ بتارہے ہیں کہ اس بار کے انتخابات میں بی جے پی کیلئے امکانات بہتر نہیں ہیں۔ گزشتہ سال مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں تمام تر کی اچھل کود اور پارٹیوں میں توڑ پھوڑ اور دل بدلی کے باوجود بی جے پی کو جو ہزیمت ملی ہے، اس سے زیادہ اترپردیش انتخابات میں اس کا وقار دائو پر لگا ہوا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بیروزگاری سے پریشان نوجوانوں کی خودکشی کے بڑھتے واقعات، کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہونے والی بدانتظامی، گنگا میں بہتی ہوئی انسانی لاشوں کی توہین، خواتین پر مظالم، خاص طور سے اترپردیش میں امن و امان کی ناقص صورتحال، پولیس اور ریاست کی طاقت کا اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ظالمانہ استعمال، نابالغ بچیوں کی بے حرمتی اورپھر ان کے قتل کے بعد راتوں رات لاشوں کا جلادیاجانا، زرعی قوانین اوراس کے خلا ف ہونے والی تحریک میں سات سو سے زیادہ کسانوں کی ہلاکت، لکھیم پور میں کسانوں کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کردیے جانے جیسے سنگین اور روح فرساواقعات کی وجہ سے بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف عام لوگوں کی ناراضگی بڑھی ہے۔
دوسری طرف اترپردیش میں حزب اختلاف پرینکاگاندھی کی قیادت میں کانگریس سے مل رہے سخت چیلنجز اور سماج وادی پارٹی – راشٹریہ لوک دل کا مضبوط اتحاد اور بہوجن سماج پارٹی کی دلتوں کی سیاست کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی مشکلات میںاضافہ ہوگیا ہے۔ان مشکلات سے نکلنے کیلئے بی جے پی کے پاس بظاہر کوئی راستہ نہیں ہے۔ پارٹی کی پوری قیادت اترپردیش کے مختلف شہروں میں خیمہ زن ہے اور پوری کوشش مذہبی پولرائزیشن کی ہے جس کا آغاز انتخابی مہم کے پہلے دن سے ہی کردیاگیاتھا۔ جناح اور پاکستان سے ہوتے ہوئے ٹوپی اور قبرستان تک کی باتیں انتخابی مہم میں کی گئیں،ان سب کے ساتھ اب ایک نیا ایشو بھی ہاتھ آگیا ہے اور وہ ہے کرناٹک کے ایک تعلیمی ادارہ میں پیش آنے والا حجاب کا واقعہ، جسے طول دیتے ہوئے پورے ملک میں پھیلادیاگیا ہے اور اب اس کا استعمال پانچ ریاستوںکے اسمبلی انتخابات میں مذہبی پولرائزیشن کیلئے کیا جا رہا ہے۔یہ حربہ خاص طور سے اترپردیش میں کارگرہوتانظرآرہاہے کیوں کہ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے بظاہر بی جے پی مخالف نظرآنے والا خیمہ بھی اس میں دانستہ یا غیردانستہ طور پراپنا حصہ ڈال رہاہے، اگرا یسا نہیں ہوتا تو حجاب کے واقعہ پر بہن مسکان خان کے حوصلوں کو سلامی دینے کیلئے نقد رقم کے انعام کا اعلان نہیں کیاجاتا۔نقد رقم کے اعلان سے بی جے پی مخالفین نے وہی کیا ہے جو بی جے پی چاہتی تھی۔ حجاب کا واقعہ اگر کرناٹک کے ایک دو کالجوں تک ہی محدود رہتا تو بی جے پی مذہبی پولرائزیشن کیلئے اس کا استعمال نہیں کرسکتی تھی ہم نے انعام کا اعلان کرکے اور اس معاملہ میں بی جے پی کا مطلوبہ ردعمل دے کر بی جے پی کی منشا پوری کردی ہے، وہیں قومی سطح پر ایشو بنانے کی بی جے پی کی کوشش کامیاب ہوگئی ہے۔’ نقدرقم‘ کے اعلان پر کرناٹک کے منڈیا میں ’نریندر مودی وچارمنچ‘ کی جانب سے درج ہونے والی ایف آئی آر مسلمانوں کے خلاف جہاں ایک اور نیا ’ فرد جرم‘ بن گئی ہے وہیں پولرائزیشن کو بھی مستحکم کرکے بی جے پی کی راہ ہموار کرگئی ہے۔ایک طرح سے دیکھاجائے تو اترپردیش انتخاب کے اونٹ کو بی جے پی کی مطلوبہ کروٹ دے دی گئی ہے۔ اب اگلے 6مرحلوں کے انتخاب میں کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ کچھ بعید نہیں ہے کہ ہم اپنی ’غلط حکمت‘ یا ’پس پردہ مفاد‘ کی وجہ سے خود کاندھوں پرا ٹھاکر بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار کی کرسی تک پہنچا دیں۔
[email protected]
مفاد یا غلط حکمت عملی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS