چھوت چھات اور امتیازی سلوک

0

ہندوستان جیسا سیکولر ملک، جہاں مساوات اورآزادی ہرشہری کا بنیادی حق ہے،ذات پات کی لعنت سے اب تک چھٹکارا حاصل نہیں کر پایا ہے۔سماج کے پسماندہ طبقات، دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک اور اچھوت پن ہندوستان کی سیکولر شناخت کو جہاں ناقابل تصور نقصان پہنچا رہے ہیں، وہیںاس لعنت نے سماجی و معاشرتی تانے بانے کو پوری طرح برباد کرکے رکھ دیا ہے اور ملک کی ترقی کا سفر مسلسل رکاوٹوں کا شکار ہے۔’ سب کا ساتھ- سب کا وکاس اور سب کا وشواش ‘ جیسے نعرہ کے باوجود گزشتہ چند برسوں کے دوران اس مذموم روایت میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہاہے۔
راجستھان کے جالور ضلع میں دلتوں کے ساتھ چھوت چھات اور ذات پرستی کی قبیح روایت کی وحشیانہ ہلاکت خیزی نے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے۔راجستھان کے جالور ضلع کے سائلا بلاک کے سورانا گاؤں میں سرسوتی ودیا مندر اسکول کی تیسری جماعت کا نو سالہ دلت طالب علم اندر کمار میگھوال ہندوستان کی گھناؤنی ذات پرستی کا شکار ہوگیا۔ ٹیچر کی پٹائی سے زخمی ہونے والا معصوم علاج کے دوران دم توڑ گیا۔طالب علم اندر کمار کی اس کے گاؤں میں آخری رسومات کی ادائیگی سے پہلے وہاں انصاف مانگنے والے لوگوں پر بھی انتظامیہ نے ظلم و جبر کی انتہاکردی۔ عورتوں، بوڑھوں اور بچو ں پر بھی لاٹھیاں برسائی گئیں اورانصاف مانگ رہے متوفی طالب علم کے لواحقین کو خون سے لت پت کردیا گیا۔ بتایاجاتا ہے کہ اس معصوم دلت طالب علم نے ٹیچر کے گھڑے سے پانی پینے کا ’ ناقابل معافی جرم‘ کیاتھا جس کی پادا ش میں اونچی ذات کے ٹیچر نے اس کی وحشیانہ پٹائی کی۔بچہ کو اسپتال میں داخل کیاگیا جہاں اس نے علاج کے دوران دم توڑدیا۔اونچی ذات کے اس ٹیچر کو صرف اس بات پر غصہ آیا تھا کہ دلت بچہ نے اسکول میں اس کے گھڑے سے پانی پی لیاتھا۔ٹیچر نے اتنی بے رحمی سے بچہ کو مارا پیٹا کہ اس کے کان کی رگ پھٹ گئی اور حالت بگڑ گئی۔ بچہ کے بہتر علاج کیلئے اہل خانہ 25 دن تک بھٹکتے رہے، لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ اہل خانہ کی شکایت پر ٹیچر کے خلاف ایس سی-ایس ٹی ایکٹ اور دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور کیس کی جانچ کی جارہی ہے۔
وحشیانہ حد تک گھناوئی ذات پرستی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی ہریانہ کے اسکول میں بھی دلت بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ہریانہ کے کرنال میں پیش آئے اس واقعہ میں اعلیٰ ذات کے ایک ٹرینی ٹیچر نے طلبا کو ذات پات کے مطابق لائن بناکر بٹھانے کا انتظام کیا تھا اور طالبات کے خلاف انتہائی نازیبا ریمارکس بھی دیے تھے۔معاملہ جب منظرعام پر آیا توگائوں والے بھی ٹیچر کے ساتھ ہوگئے اور اعلان کردیاکہ اس اسکول میں دلت بچوں کوداخل نہیں ہونے دیاجائے گا۔
گجرات کے راج کوٹ کے آنگن باڑی مرکز میں بھی اسی طرح کا معاملہ پیش آچکا ہے۔اس ضلع میں پانچ آنگن باڑی مراکز ہیں جن میں سے ایک دلتوں کی بستی کے قریب ہے جس کی وجہ سے اس میں دوسری ذات کے لوگ اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے ہیں اور باقی چار مراکز میں دلتوں کے بچوں کے آنے پر پابندی ہے۔
چند برس قبل حیدرآباد میں دلت طالب علم روہیت ویمولا کے قتل کا معاملہ بھی اسی ذات پرستی سے منسلک تھا جس نے پورے ملک میں غم وغصہ کی لہر دوڑادی تھی۔ اس وقت کی سیاست میں آنے والے ابال کو دیکھ کر محسوس ہورہاتھا کہ ہندوستان سماج سے ذات پرستی جیسی لعنت کے خلاف تبدیلی کی لہر اٹھے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے برخلاف دلتوں اور دیگر پسماندہ ذات کے لوگوں کے خلاف چھواچھوت اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہی ہونا شروع ہوگیا۔ متواتر پیش آرہے ان مذموم واقعات کے باوجود بھی ذات پرستی کے خلاف نہ تو حکومت کوئی سنجیدہ مہم چھیڑتی ہے اور نہ ہی سماج میں اس مذموم برائی کے خلاف بیداری مہم ہی چلائی جارہی ہے۔
اس جدید ترین دور میں جب سائنس ستاروں سے آگے بھی جہاں کی تلاش میں کامیابی کا جھنڈا گاڑ رہی ہے اور اہل علم انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے روزانہ نت نئی ایجادات سامنے لارہے ہیں، ہندوستان میں پانی اور تعلیم جیسی چیزوں میں امتیازی سلوک اور اس کیلئے دلتوں کو مارا پیٹا جانا انتہائی شرم ناک اورا نسانیت کیلئے ایک لعنت ہے۔اس سماجی برائی کا خاتمہ کیے بغیرنہ تو ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہم ایک بہتر اور تعمیری معاشرہ کی توقع کرسکتے ہیں۔ ملک کی ترقی کاسفر اسی صورت جاری رہ سکتا ہے جب اس سفر میں کسی امتیاز کے بغیرسماج کے ہر فردکو شامل کیاجائے بصورت دیگر ہندوستان نہ تو کبھی آتم نربھر ہوسکتا ہے اور نہ وشو گرو بننے کا خواب ہی کبھی شرمندۂ تعبیر ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS