کانگریس کی ٹیم کھڑگے

0

ہندوستان میںاب کانگریس کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے جسے کھڑگے کا دور کہاجارہاہے۔ششی تھرور کو گزشتہ ہفتہ انتخاب میں ہرانے کے بعد ملکارجن کھڑگے نے 26نومبر بدھ کو کانگریس کے صدر نے عہدہ سنبھال لیا اوراس کے اگلے ہی پل انہوں نے اپنی نئی ٹیم کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ ان کی یہ ٹیم کانگریس اسٹیئرنگ کمیٹی کہلائے گی اوراس کے47 ارکان یہ فیصلہ کریں گے کہ کانگریس کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس سے پہلے کھڑگے کے عہدہ سنبھالتے ہی روایت کے عین مطابق تمام ورکنگ کمیٹی ممبران‘ جنرل سکریٹریز اورمختلف شعبوں کے انچارج نے اپنااپنا استعفیٰ پیش کر دیاتھا تاکہ پارٹی کے نئے سربراہ اپنی پسند کی ٹیم بناسکیں۔نئے سربراہ نے اپنی پسند کے مطابق پارٹی کی جو نئی ٹیم بنائی ہے اس میں اکثریت ان ہی لیڈروں کی ہے جو پہلے سی ڈبلیو سی میں ہواکرتے تھے۔اس ٹیم میں سونیا گاندھی، سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ اے کے انٹونی، پی چدمبرم، امبیکا سونی، ادھیر رنجن چودھری، آنند شرما، کے سی وینو گوپال ‘رندیپ سرجے والا اورطارق انور کو بھی شامل کیا ہے ۔دلچسپ بات تویہ ہے کہ پہلے ہی مرحلہ میں کھڑگے اپنی انتخابی مہم کے وعدہ سے پھرتے نظر آئے ہیں۔ ان کی 47رکنی نئی ٹیم میں 46ارکان کی عمریں 50 سے کہیں زیادہ 60،70اور 75سال ہیںصرف ایک رکن 49سال کا ہے جب کہ کانگریس صدر کے انتخاب کیلئے مہم چلاتے ہوئے ملکارجن کھڑگے نے وعدہ کیاتھا کہ پارٹی میں 50 فی صدعہدے 50سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو دیے جائیں تاکہ ان کی بھر پور نمائندگی ہواورپارٹی میں نیا خون بھی شامل ہوتار ہے لیکن نئی ٹیم کی تشکیل میں اس وعدہ کا کوئی پاس نہیں رکھاگیا ہے ۔
دوسری طرف اجتماعی قیادت اور سب سے مشورہ کرنے کی کھڑگے کی بات بھی ’ جملہ‘ ہی محسوس ہورہاہے کیوں انہوں نے اپنی نئی ٹیم میں ششی تھرور کو بھی جگہ نہیں دی ہے۔ اب اس کی وجہ کیا ہے یہ تو کانگریس اور اس کے نئے صدر ہی بہتربتا پائیں گے لیکن اس سے پارٹی اور بیرون پارٹی یہی پیغام جارہاہے کہ صدر بننے کے بعد بھی کھڑگے گاندھی خاندان کی پسند اورناپسند کا خیال رکھنے پرمجبور ہیں۔اگر پہلے ہی دن یہ صورتحال ہے تو آنے والے دنوں میں بہتری کی توقع زیادہ بارآور نہیں ہوگی۔ ویسے بھی ملکارجن کھڑگے گاندھی خاندان کے قریبی بتائے جاتے ہیں۔ صدر کے عہدے کے انتخاب میں بھی کہا گیا تھا کہ انہیں گاندھی خاندان کی غیرعلانیہ حمایت حاصل ہے۔یہ بھی افواہ تھی کہ کھڑگے اپنی آزادانہ حیثیت میں نہیں ہیں بلکہ وہ انتخاب میں سونیا گاندھی کی ہی نیابت کررہے ہیں۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کے ارکان کی فہرست بھی ان افواہوں کو حقیقت کے قریب لارہی ہے ۔
حالانکہ کھڑگے ایسے وقت میں کانگریس کے صدر بنے ہیں جب پارٹی مختلف طرح کے چیلنجز سے گزررہی ہے ۔ ہندوستان کے سیاسی منظر نامہ میں کانگریس کا وجود سمٹ کر صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ تک محدود ہوگیا ہے ۔ بہار، جھارکھنڈ اور تمل ناڈو میں حکمراں جماعت کے اتحاد سے اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حال کے برسوںمیں کرناٹک، پنجاب، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور پڈوچیری جیسی ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، اڈیشہ میں کانگریس کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ مغربی بنگال اسمبلی میں تو آج کانگریس کا کوئی رکن ہی نہیں ہے ۔کانگریس کے مضبوط سمجھے جانے والے قومی سطح کے کئی لیڈران پارٹی چھوڑ کر بی جے پی اور دوسری سیاسی جماعتوںکی پناہ میں پہنچ گئے ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ پارٹی میں موجودکچھ لیڈروں کا باغیانہ تیور کہیں ان کی رخصتی کابھی نقیب نہ بن جائے ۔ان سب کے درمیان ایک طرف کانگریس کی ختم ہوچکی عوامی حمایت از سر نوحاصل کرنا ہے تو دوسری جانب بی جے پی کے ’کانگریس مکت بھارت ‘ کے نعرے کا مقابلہ ہے۔ سامنے ہماچل پردیش اور گجرات کے اسمبلی انتخابات ہیں تو 2024میں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جیتنا کانگریس کیلئے ایک چیلنج ہے اوران سب سے بڑاچیلنج کانگریس کو زندہ رکھنا ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی ٹیم کھڑگے جو کہ نئی بوتل میںپرانی شراب کی طرح ہی ہے کیامعجزہ دکھائے گی اس کا عوام کو انتظار رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS