پروفیسر عتیق احمدفاروقی
جمہوریت کی ایک بڑی خوبی ہے کہ اس میں بہت سنسنی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ چاہے حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار عوام کسی کو بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتے ۔ دوسرے ، کسی نتیجے کی گارنٹی ووٹوں کی گنتی سے پہلے نہیں دی جاسکتی۔ جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں ان میں سے کسی میںبھی نہ تو بی جے پی کو مکمل طور پر یقین تھا اورنہ کانگریس مطمئن تھی کہ وہ فتحیاب ہوگی۔ اب نتائج آگئے ہیں اورمدھیہ پردیش میں بی جے پی کو شاندار جیت ملی ہے جبکہ راجستھان نے ہر پانچ سال پر حکومت بدلنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی پربھروسہ جتایاہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان دونوں ہی ملک کی بڑی ریاستیں ہیں اوردونوں کی ہندوستانی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ ان دونوں ریاستوں کے نتائج سے کانگریس ، ایسا لگتاہے پہلے کے مقابلے مزید کمزور ہوجائے گی جبکہ بی جے پی کا حوصلہ لوک سبھا چناؤ کے مدنظر بہت بڑھ جائے گا۔ بی جے پی کا حوصلہ بڑھنا تو فطری بات ہے لیکن کانگریس مزید کمزور ہوجائے گی اس بات کو میں نہیں مانتا۔ اسمبلی انتخابات اورلوک سبھا کے الیکشن کی نوعیت میں کافی فرق ہے ۔ جہاں پارلیمان کا چناؤ قومی وملکی مدعوں پر لڑاجاتاہے ، اسمبلی انتخابات مقامی مسئلوں پر ہوتے ہیں۔ اگران دونوں انتخابات کا تاریخی جائزہ لیاجائے تو پچھلی بار مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اورراجستھان تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی اسمبلی انتخابات ہارگئی تھی پر چند مہینے کے اندر لوک سبھا انتخابات میں اس نے کانگریس کو زور دار شکست دی تھی۔ دراصل ایگزٹ پول اوردوسرے ذرائع سے جو اشارے مل رہے تھے اس سے تو ایسا لگ رہاتھا کہ چار ریاستوں میں (میزرم کو چھوڑ کر)کم ازکم تین میں کانگریس فتحیاب ہوگی لیکن کانگریس نے کچھ غلطیاں کیں جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔ اول، کانگریس کایہ نظریہ کہ’ انڈیا ‘اتحادیوں کے بناوہ اپنے بل بوتے پر اسمبلی انتخابات جیت سکتی ہے، غلط ثابت ہوا۔ اس کوکچھ نشستیں سماجوادی پارٹی کو دیناچاہئے تھا اورنتیش کمار کو پارٹی کی تشہیر کیلئے اسٹار کمپینر بنانا چاہئے تھا۔ کانگریس کو مدھیہ پردیش میں سماجوادی پارٹی سے اور راجستھان میں مقامی پارٹیوں سے سمجھوتہ کرناچاہے تھا۔ اس طرح کانگریس کو کم ازکم پندرہ نشستوں کا فائدہ ہوتا۔
دوئم، بی جے پی کی کامیابی سے متاثر ہوکر کانگریس نے کہیں کہیں سافٹ ہندتوا کی پالیسی کو بھی اپنایاہے۔ جو پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے سمجھوتہ کرتی ہے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ چند سالوں سے ایسا دیکھنے میں آیاہے کہ مسلمانوں سے متعلق مدعوں پر کانگریس نے خاموشی اختیار کی ہے ، چاہے وہ سی اے اے کامسئلہ ہو، تین طلاق کا مدعا ہو، کامن سول کوڈ کا ایشو ہو ، مسلم نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہو، یا لنچنگ کا معاملہ ہو، بھارت جوڑو یاترا سے قبل کانگریس خاموش رہی ہے ۔ جب سے کھرگے نے کانگریس کی صدارت سنبھالی ہے اور بھارت جوڑو یاترا کامیابی سے مکمل ہوئی ہے راہل گاندھی ،پرینکاگاندھی اوردوسرے لیڈران حق کی بات کھل کر بولنے لگے ہیں۔ جنید اورناصر کا قتل کانگریس کی حکومت والی ریاست میں ہواتھالیکن انہیں آج تک انصاف نہیں ملا۔ راہل گاندھی اورچھتیس گڑھ کے سابق وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل کیمرے کے سامنے مندر میں درشن کرتے دیکھے گئے۔
سوئم، تینوں ریاستوںمیں (راجستھان، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ)آدی واسی رائے دہندگان کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ صرف چھتیس گڑھ میں 34 فیصد آدی واسی ووٹرس رہتے ہیں۔ آدی واسیوں کے بیچ بی جے پی نے جتنی محنت کی کانگریس نے اتنی محنت نہیں کی۔ اگرچہ چھتیس گڑھ میں ایک بڑا آدیواسی لیڈر کانگریس میں شامل ہوگیاتھا اس کے باوجود وہاں کانگریس کو شکست ہوئی ۔ دراصل وہاں پر ایگزٹ پول اور اوپینین پول سے جو اشارے مل رہے تھے اس کے مطابق کانگریس کو ہی جیتنا چاہیے تھا۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شکست کا سبب اُس کی حد سے زیادہ پُراعتمادی اوراطمینان بھی ہے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس نے بی جے پی کے مقابلے وعدے تو ضرور کئے لیکن ریاست کی ترقی کیلئے کوئی خواب یا روڈ میپ وہ نہیں پیش کرسکی۔ علاوہ ازیں مدھیہ پردیش میں اوبی سی کارڈکانگریس اتنی ہوشیاری سے نہیں کھیل سکی جتنی ہوشیاری سے بی جے پی کھیلی۔ کانگریس کے مقابلے بی جے پی نے اوبی سی کو زیادہ ٹکٹ دئے۔ وہاں پر ٹکٹ کی تقسیم میں بھی کانگریس نے غلطی کی ۔ الیکشن کے ٹھیک پہلے بی جے پی کی ’لاڈلی بہنااسکیم‘ اورپانچ کلو فی کس مفت غلہ کی تقسیم سے بھی مدھیہ پردیش میں اس کو فائدہ پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ الیکشن کے ضابطہ ٔ اخلاق کی خلاف ورزی تھی اوراس سے پہلے اسی طرح کی اسکیم الیکشن سے پہلے جب تلنگانہ میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو الیکشن کمیشن نے اسے روک دیا اور اس سے اس کا سلوک سوالات کے گھیرے میں آچکاہے۔
چہارم، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بی جے پی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری تھی ۔اس نے جتنی بڑی تعداد میں مرکزی وزرا سمیت پارٹی کے ایم پی کو ودھان سبھا چناؤ لڑنے کیلئے بھیجا ویسا اس کے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔ حالانکہ کئی ابتدائی تجزیہ میں یہ کہاگیاتھا کہ پارٹی کو ہار دکھائی دے رہی ہے، اس لئے اس نے ایسا قدم اٹھایاہے۔ جبکہ یہ دراصل جیت کیلئے پارٹی کی ایک حکمت عملی تھی ۔علاوہ ازیں پارٹی نے ہمیشہ کی طرح اپنے ان کئی اسمبلی اراکین کو ٹکٹ نہیں دیا جن کے اچھے مظاہرے یاجن کی مقبولیت پر اسے شبہ تھا۔ بی جے پی کے مقابلے کانگریس ایسے سخت فیصلوں کیلئے نہیں جانی جاتی۔
پنجم،الیکشن میں ایک بڑاکردار پارٹی تنظیم کی طاقت اور انتخابی انتظام کا بھی ہوتاہے۔ کبھی کانگریس کی تنظیم اس مہارت کیلئے جانی جاتی تھی ، پراب وہ سب تاریخ کی بات ہوچکی ہے ۔ تنظیمی صلاحیت کے معاملے میں اس وقت بی جے پی بے مثل ہے، یہ اس نے ایک بار پھر ثابت کردیاہے۔ کانگریس کی ہار کا ایک اورسبب پارٹی کے داخلی اختلافات ہیں۔ راجستھان میں پورے پانچ سال گہلوت اورسچن پائلٹ کے بیچ تنازع کسی سے چھپا نہیں ہے۔ پارٹی ہائی کمان کی لاکھ کوششوں کے باوجود دلوں کی کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ سچن پائلٹ کے ووٹرس نے ان مقامات پر جہاں ان کی پسند کا امید وار نہیں تھا، اس کے خلاف ووٹ دے کر پارٹی کو خاصا نقصان پہنچایا۔ اگرچہ راجستھان میں وجے راجے سندھیا کی ناراضگی کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان پہنچ سکتاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان معاملات سے نمٹنا بی جے پی بخوبی جانتی ہے۔ پارٹی نے ایک طرف سندھیاکو حاشیے پر رکھا اوردوسری طرف ان کے کچھ امیدواروں کو ٹکٹ بھی دے دیا۔
آخری سبب جس کا میں ذکرنہیں کرنا چاہتا تھا لیکن حزب مخالف ، غیرجانبدار صحافیوں اور دیگر حلقوں میں اس سبب کا شور اتنا زیادہ مچ رہاہے کہ اس مدعے کونظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ یعنی ای ویم ایم مشین کے کردار پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگراس مشین کی مدد سے کوئی گھپلہ کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔ میرانظریہ ہے کہ اگراس مشین کی وجہ سے انتخابات کے نتائج کے تعلق سے اعتبار یا بھروسہ کو نقصان پہنچ رہاہے تو الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری کارروائی کرے۔ یہ ملک میں جمہوریت ،انصاف، سیکولرازم اورقانون کی حکمرانی کے تحفظ کیلئے اشد ضروری ہے۔ بہرحال تلنگانہ میں کانگریس فتحیاب ہوچکی ہے ، یہ اس کیلئے سرنگ کے آخری سرے پر امید کی ایک کرن ہے۔ ٭٭٭