حافظ ملت ایک عہد ساز شخصیت

0

مولانامحمدعرفان قادری

جلالتہ العلم حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبای رحمۃاللہ علیہ بیسویں صدی کی ایک ایسی عہد ساز شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت کئی میدان میں انتہائی اہم اور نمایاں کارنامے انجام دئیے۔
درس وتدریس،تصنیف و تالیف، دعوت وتبلیغ،تنظیم وتحریک سے لے کر اصلاح معاشرہ تک حافظ ملت نے ہر فیلڈ میں مخلصانہ جدوجہد کی اور کامیاب بھی رہے۔خاص طور سے درس وتدریس اور افراد سازی میں قابل رشک کارنامہ انجام دیا۔
حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے جس خلوص ولگن اورجہد مسلسل سے ایک مکتب کو مدرسہ اور اس مدرسہ کو دارالعلوم ویونیورسٹی کے مقام تک پہنچایا وہ حیرت انگیز ہے۔حافظ ملت نے اسباب کی کمی کا رونا کبھی نہیں رویا اور نامساعد حالات میں بھی تعلیم کے راستے پر آگے بڑھتے چلے گئے اور یہ ثابت کر دیا کہ اگر جذبہ سچا ہو،ارادہ ونیت بھی درست ہو تو دشوار حالات میں بھی ملت کی ڈوبتی اور ہچکولے کھا تی کشتی کو ساحل سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔
نونہالان ملت کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اور قوم کی جہالت وپس ماندگی دور کرنے کے لیے حافظ ملت نے جس تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی تھی آج وہ تعلیمی ادارہ جامعہ اشرفیہ کی شکل میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی براعظموں میں اسلام وسنیت کی روشنی بکھیر رہا ہے اور دنیا کے آخری کونے تک لوگ اس ادارے کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہورہے ہیں۔
ملت کی حالت زار پر آنسو بہانے والے بہت ہیں،ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے کاڈھنڈھورا پیٹنے والوں کی بھی کمی نہیں،لیکن حفظ ملت کام پر یقین رکھتے تھے۔انہوں نے ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس منصوبہ بناکر اسے عملی جامع پہنایا اورہمیشہ ذاتی مفاد پر ملی مفاد کو ترجیح دی۔ٹھیک اسی شاہراہ پرشہزادہ حافظ ملت حضرت علامہ عبدالحفیظ عزیزی سر براہ اعلی جامعہ اشرفیہ بھی کام کررہے ہیں۔عزیز ملت کی قیادت میں حافظ ملت کے تمام تر منصوبے نہ صرف پایہ تکمیل کوپہنچے بلکہ بہت سے ضروری اور اہم شعبوں کا اضافہ بھی ہوا۔جامعہ اشرفیہ میں تعلیمی وتعمیری ترقی کا یہ سلسلہ برق رفتاری کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔
عہد حاضر میں مدارس کے اندر اختلاف وانتشار اور اساتذہ وکمیٹی کے درمیان جوخلفشار کا ماحول ہے وہ بالکل عیاں ہے۔لیکن فتنہ وفساد کے اس پر فتن دور میں جامعہ اشرفیہ میں تعلیم وتعلم کا جو خوبصورت ماحول ہے وہ مدارس کی دنیا میں مثالی ہے۔
”زمین کے اوپرکام اور زمین کے نیچے آرام ”
حافظ ملت کا یہ قول آج بڑے شوق سے دہرایاجاتاہے لیکن اس کی تہ میں اتر کر غور وفکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔حافظ ملت کے ذریعہ تعلیمی میدان میں اتنا بڑا انقلاب ایسے نہیں برپا ہوا بلکہ اس کے لیے انہوں نے اپنی پوری صلاحیت وفکری توانائی صرف کردی اور زندگی کے آخری ایام تک دین ومذہب کی اشاعت کرتے رہے۔مدارس اسلامیہ کے اساتذہ وذمہ داران کے لیے حافظ ملت کا یہ قول اور ان کی عملی زندگی مسلسل دعوت فکروعمل دے رہا ہے۔
اپنی زندگی بہتر بنانے کی فکر ہر کسی کو ہوتی ہے لیکن جو انسان دوسروں کے لئے جیتا ہے اس کی بات کچھ اور ہی ہوتی ہے۔حافظ ملت کا ماننا تھا کہ زندگی وہی ہے جو دوسروں کے کام آسکے۔حافظ ملت صرف قول تک محدود نہیں تھے بلکہ جو کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔حافظ ملت اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل تھے۔ان کی شخصیت اخلاق نبوی سے مزین وآراستہ تھی۔وہ دوسرے کی پریشانی کواپنی پریشانی سمجھتے تھے۔ طلبہ کے ساتھ ان کا رویہ بہت ہی مشفقانہ تھا۔کوئی طالب علم بیمار پڑجاتا تو اس کی عیادت کو جاتے ساتھ میں کھانے پینے کا سامان بھی لیجاتے اور اسے محبت بھرے انداز میں پیش کر تے اور اس بچے کی صحت یابی کے لئے پرخلوص دعائیں بھی کرتے۔آپ کا یہ طریقہ صرف طلبہ کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ تمام مسلمانوں اور مصیبت زدہ ہر شخص کے ساتھ حافظ ملت یہی سلوک اپناتے تھے۔حافظ ملت ان ساری صفات اور خوبیوں کے حامل تھے جو ایک عالم ربانی اور قائد ومصلح کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔حافظ ملت کی زندگی نہ صرف اساتذہ ومعلمین کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ حافظ ملت ان تمام افراد کے لیے بھی آئیڈیل ہیں جو تعلیمی،تبلیغی،تنظیمی اور اصلاحی میدان میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ صادق رکھتے ہیں۔
حافظ ملت کی پوری زندگی خدمت دین اور قومی وملی فلاح وبہبود سے عبارت ہے۔ہر وقت کام میں لگے رہنا اور ہمہ وقت کام کے جذبہ سے سر شار رہنا حافظ ملت کا خاص شیوہ تھا اور یہی شیوہ حافظ ملت کے تلامذہ وشاگردوں میں بھی نظر آتا ہے۔جامعہ اشرفیہ اور وہاں کے فارغین کو جو غیر معمولی شہرت ومقبولیت حاصل ہے اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ ان کا مطمح نظر صرف کام ہے۔کام ہی کی بدولت اشرفیہ پوری دنیا میں جاناجاتا ہے اور وہاں کے فارغین قدروعزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS