نئے اراضی قوانین کے خلاف سری نگر میں مکمل اور باقی اضلاع میں جزوی ہڑتال

    0

    سری نگر:وادی کشمیر میں ہفتے کو نئے اراضی قوانین،جن کے تحت ملک کے کسی بھی شہری کو جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کا اختیاردیا گیا ہے،کے خلاف ہڑتال رہی۔
    ہڑتال کی کال میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے دی تھی۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے سال گذشتہ کے پانچ اگست کے فیصلوں کے بعد حریت کانفرنس کی طرف سے دی جانے والی یہ پہلی ہڑتال کال تھی۔
    حریت کانفرنس (گ)کے چیئرمین سید علی گیلانی سال رواں میں ہی مختلف وجوہات کی بنا پرحریت سے مستعفی ہوئے جب کہ حریت کانفرنس (ع)کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق سال گذشتہ کے پانچ اگست سے مسلسل نظر بند ہیں تاہم ان کی پارٹی کی طرف سے بیان جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
    یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار نے ہفتے کی صبح سری نگر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ شہر سری نگر کے سول لائنز کے ساتھ ساتھ شہر خاص کے بھی تمام علاقوں میں بازار بند ہیں۔
    انہوں نے کہا کہ حریت کال کے پیش نظر ہفتے کو بازاروں میں تمام دکانیں بند رہیں تاہم سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل جزوی طور پر جاری رہی۔
    انتظامیہ نے شہر کے حساس علاقوں میں احتیاطی طور پر سیکورٹی فورسز کی تعیناتی میں اضافہ کیا تھا۔ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے باب الداخلوں کے سامنے سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں کو کھڑا کیا گیا تھا اور اس کے گرد وپیش بھی سیکورٹی کا حصار مزید بڑھا دیا گیا تھا۔
    جنوبی کشمیر میں ہفتے کو جزوی ہڑتال رہی۔ اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق بازاروں میں کچھ دکانیں بند تو کچھ کھلی رہیں اور سڑکوں پر بھی ٹریفک کی نقل و حمل جاری رہی۔
     فروٹ منڈی'سوپور فروٹ منڈی'نے حکومت کے جموں و کشمیر میں نئے اراضی قوانین لاگو کرنے کے خلاف ہفتے کے روز ہڑتال کی۔وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل اور بڈگام میں بھی ہڑتال کا کم ہی اثر دیکھا گیا۔
    واضح رہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کر کے ملک کے کسی بھی شہری کو اس خطے میں زمین خریدنے کا اختیار دیا ہے۔
    ترمیم شدہ قوانین کی رو سے حکومت کسی بھی فوجی افسر کی تحریری درخواست پر کسی بھی قطعہ اراضی کو 'دفاعی علاقہ' قرار دے کر اسے فوج کو دفاعی ضرورت کے لئے دے سکتی ہے۔
    تاہم مرکز کے زیر انتظام لداخ میں، جو رقبے کے لحاظ سے جموں و کشمیر سے بڑا ہے،ترمیم شدہ اراضی قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ اس پر وہاں کے بی جے پی رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
    گذشتہ برس پانچ اگست کو منسوخ کی گئی آئین ہند کی دفعہ 35 اے کی رو سے ملک کی کسی دوسری ریاست کے کسی بھی شہری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے اور یہاں کا مستقل شہری بننے کا حق حاصل نہیں تھا۔
    دفعہ 35 اے کی رو سے اس خطے میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف،ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو ہی حاصل تھا۔
    حریت کانفرنس(ع)لیڈران پروفیسر عبد الغنی بٹ،بلال غنی لون اور مسرور عباس انصاری نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ نئی دہلی جموں و کشمیر کے عوام پر زور زبردستی سے یکے بعد دیگرے ایسے قوانین نافذ کر رہی ہے جن کے ذریعے بیرون کشمیر کا کوئی بھی شہری یہاں زمین جائیداد خریدنے کا مجاز ہوگا اوراس قانون میں ترمیم کی وجہ سے جموں و کشمیر میں سول سروسز اور سرکاری ملازمتوں اور تعلیم کے شعبوں میں بیرون کشمیر کے افراد کے براہ راست شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے قدرتی وسائل کا بڑے پیمانے پر استحصال ہوگا۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS