منی پور کے واقعہ کا دیگر ریاستوں سے موازنہ ناقابل فہم: صبیح احمد

0

صبیح احمد

تقریباً 3 ماہ سے زائد عرصہ سے منی پور کو بار بار تشدد کے واقعات، خونریزی، بد امنی اور امن کی ناکام کوششوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 3 مئی سے جب سے شمال مشرقی ریاست میں پہلی بار نسلی جھڑپیں شروع ہوئیں، ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ فہرست ’ابھی نامکمل ہے…۔‘ آتشزدگی کے ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں، دیہاتوں میں ہزاروں مکانات کی تباہی ہوئی ہے، ہزاروں آتشیں اسلحہ پولیس کے اسلحہ خانے سے پرتشدد ہجوم کے ذریعہ لوٹ لیا گیا ہے اور یہ سب کچھ منی پور کے زبردست حفاظتی گھیرے میں ہونے کے باوجود ہو رہا ہے۔ ریاست میں فی 100,000 افراد پر پولیس اہلکاروں کی تعداد ہندوستان کی تیسری سب سے زیادہ ہے۔ اس کا بڑا حصہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ (AFSPA) کے تحت ہے، جس میں مختلف مرکزی فورسز کی 114 کمپنیاں تعینات ہیں۔ ان سب کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ یہاں ’ڈبل انجن‘ کی حکومت ہے — مرکز اور ریاست دونوں ہی جگہ بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ اگر پارٹی کے مضبوط ترین لیڈروں میں سے ایک کی بطور وزیراعلیٰ پڑوس میں موجودگی کو شمار کیا جائے تو ’ٹرپل انجن‘ کی حکومت ہے۔ اور مرکزی وزارت داخلہ صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔لیکن صورتحال ابھی تک قابو سے باہر ہے۔
ادھر پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بھی جاری ہے جو مسلسل منی پور تشدد پر ہنگامہ آرائی کی نذر ہو رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں وزیراعظم سے پارلیمنٹ میں اس حوالے سے بیان دینے کے مطالبہ پر اڑی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد نے شاید وزیراعظم کی خاموشی توڑنے کے لیے ہی تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیا ہے کہ اسی بہانے وزیراعظم منی پور کے حالات پر بھی کچھ بولیں لیکن اس تحریک پر بحث کرانے میں بھی تاخیر کا حربہ اپنا یا جا رہا ہے۔ دریں اثنا اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک 21رکنی وفد تشدد زدہ ریاست منی پور کی زمینی صورتحال کا جائزہ لے کر دہلی واپس لوٹ چکا ہے۔ ریاست میں ’بے مثال تشدد‘ کے شواہد پر ’صدمے‘ اور وزیر اعظم کی ’ڈھٹائی سے بے حسی‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اراکین پارلیمنٹ کے وفد نے امن و امان کی موجودہ خستہ صورتحال کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ چورا چاند پور، موئرنگ اور امپھال میں ریلیف کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد ریاستی گورنر کو تحریر کردہ ایک مشترکہ خط میں وفد کے اراکین نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’بلاشبہ ریاستی مشینری گزشتہ تقریباً 3 ماہ سے صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔‘تشویش ناک بات یہ کہ پرتشدد جھڑپوں کے آغاز سے ہی دونوں فریقوں میں ’غم و غصہ، احساس بیگانگی اور عدم اعتماد‘ کا ماحول ہے جو اب دھیرے دھیرے ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ریلیف کیمپوں، خاص طور پر وہاں رہنے والے بچوں کی حالت افسوسناک اور انتہائی قابل رحم ہے۔ تمام اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہونے سے طلبا کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان حالات میں وزیراعظم کی خاموشی واقعی حیران کن ہے۔ یہ حکومت کی جوابدہی بنتی ہے کہ وہ صورتحال سے پورے ملک کو آگاہ کرے۔ کوئی اکا دکا واقعہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ مسلسل 3 مہینے سے منی پور جل رہا ہے۔ حالات کی بہتری اور عوام کے درمیان باہمی اعتمادسازی کے لیے حکومتوں(ریاستی و مرکزی) کی جانب سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، ملک کے لوگوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وزیراعظم ہیں کہ اس اہم اور تشویشناک ایشو پر کچھ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی 2 خواتین کی برہنہ حالت میں پریڈ اور جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے ویڈیو بنانے کے ہولناک واقعہ پر وزیراعظم نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار ضرور کیا لیکن اس میں بھی ایک پیغام دینے کی کوشش کی گئی اور اس پیغام کو کچھ لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وزیراعظم کا بیان تھا کہ ’منی پور کا واقعہ جو منظرعام پر آیا ہے وہ کسی بھی تہذیب کے لیے شرمناک ہے۔ ملک شرمندہ ہے۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ سے اپیل کرتا ہوں کہ جرائم، خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے قوانین کو مضبوط بنائیں۔ واقعہ راجستھان، چھتیس گڑھ یا منی پور کا ہو سکتا ہے، مجرم کو ملک کے کسی بھی کونے میں نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔‘ ان الفاظ کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی نے تمام ہندوستانیوں کے خیالات کی بازگشت کی تھی اور اس ہولناک واقعہ کی مذمت کی تھی۔
اس کے بعد کچھ لوگوں نے ایک زبان ہو کر منی پور تشدد کا موازنہ راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اکا دکا واقعات سے کرنا شروع کر دیا، یہ بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ ٹھیک ہے، دیگر ریاستوں میں کیا، ملک کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئیںلیکن کیا اس واقعہ کی سنگینی کو یہ کہہ کر کم کیا جانا کسی بھی طرح درست ہے کہ دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں؟ واقعہ کو یہ کہہ کر قطعی درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ایسا اور بھی کہیں ہوا ہے۔ منی پور اور راجستھان میں ہونے والے واقعات کے جرائم کی نوعیت ایک جیسی ہو سکتی ہے لیکن ان کے پیچھے چھپی سوچ پر توجہ دینا ضروری ہے۔ منی پور میں نسلی تنازع چل رہا ہے، اس لیے منی پور کے واقعہ کا دوسری ریاستوں کے واقعات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ ملک میں دوسری جگہوں پر بھی عصمت دری ہوتی ہے، لیکن منی پور میں خواتین کو نسلی تشدد میں استعمال کیا جارہا ہے۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے خواتین کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ منی پور کے واقعہ کا دوسری ریاستوں سے موازنہ شرمناک ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ منی پور میں تشدد پر سیاست کی جا رہی ہے۔ حکومت اپوزیشن پر منی پور معاملے پر سیاست کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ جب وزیراعظم منی پور تشدد جیسے حساس معاملے پر خاموشی اختیار کر رہے ہیں تو ان سے بیان کا مطالبہ کرنا سیاست کرنا ہے؟ اور سیاست کیوں نہ ہو؟ سیاست ہر معاملے پر ہوتی ہے۔ اگر مہنگائی، جرائم، ملکی سلامتی پر سیاست نہیں ہوگی تو کس پر سیاست ہوگی؟ ملک میں کچھ بھی غیر سیاسی نہیں ہے۔ پورا معاملہ ہی سیاسی ہے۔ ٹھوس سیاسی پیش قدمی سے ہی مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن نے اب تحریک عدم اعتماد کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس پر بھی بحث میں تاخیر کی جارہی ہے۔ اس کا خمیازہ برسراقتدار پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ منی پور کے مسئلہ پر وزیراعظم کے بیان میںتاخیر سے بی جے پی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وزیراعظم اتنے حساس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ بی جے پی کو خواتین کے ووٹ بڑے پیمانے پر مل رہے ہیں اور جب منی پور واقعہ سے ملک کی خواتین میں غم و غصہ ہے تو وزیراعظم کی خاموشی حیران کن ہے۔ پورا ملک وزیراعظم کی طرف دیکھ رہا ہے کہ اس اہم معاملے پر ان کی کیا سوچ ہے اور وہ اس معاملے میں کیا فیصلے لیتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS