موسم کی تبدیلی اور آلودگی :اسلامی تعلیمات

0

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اسلام نے صاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا کہ’’ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت مچاؤ‘‘ (سورہ اعراف56-)۔ قدرت نے زمین کو جس حسن و جمال اور امن وامان سے آراستہ کیاہے،اس میں کسی قسم کی تبدیلی مت کرو۔ زمین کی موجودہ تبدیلیوں پر فساد کا اطلاق ہو سکتا ہے،اس وجہ سے کہ پچھلی چند دہائیوں سے زمین کا اصل نظام ِاعتدال و توازن متاثر ہوتاجارہا ہے اوراس کی حقیقی افادیت بہ تدریج ختم ہورہی ہے، جو مستقبل میں بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے۔یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کائنات کا حسن وجمال اس کی قدرتی وفطری آب وہوا میں ہے۔ جب کبھی دنیا فطرت سے سر مو انحراف کرے گی،زمین وآسمان میں لازماً فسادوبگاڑ برپا ہوگا۔ رب کائنات نے ماحولیاتی کثافت کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع پیدا کررکھے ہیں،زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینہ میں دفن کرلیتی ہے۔ مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کئے جائیں تو سارا ماحول متعفن ہوکر رہ جائے۔ شہروںمیں کوڑا کرکٹ کی شکل میں ٹنوں منوں غلاظت،زمین اپنے سینہ میں اتار کر تحلیل کردیتی ہے۔ سمندر کا حیرت انگیزنظام ‘ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردارادا کرتا ہے۔ ہر دن سمندر میں بے شمار حیوانات مرتے ہیں اور ہزاروں جانور غلاظت کرتے ہیں پھر کارخانوںکے آلودہ پانی کا رخ بھی سمندروں کی طرف کیا جاتا ہے، سمندر کا کھارا پانی ان ساری چیزوں کو تحلیل کرکے ماحولیاتی تحفظ کا سبب بنتا ہے جو اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ان سارے قدرتی ذرائع کے باوجوداس وقت ماحولیاتی کثافت پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دین اسلام نے جہاں موجودہ دور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی حل موجود ہے۔ارشاد باری ہے ’’وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں میں تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔ اسی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔بے شک ان لوگوںکے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘(النحل11-10:)

حالات اور آکسیجن کی کمی کے پے در پے واقعات کے تناظر میں یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوںکی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیاجائے۔ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور شجرکاری کے حوالے سے وقتی اور عارضی مہم کے بجائے مستقل اوردائمی اقدامات کیے جائیں۔

حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جومسلمان درخت لگاتاہے پھر اس میں سے جتنا حصہ کھالیاجائے وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے اور جو اس میں سے چوری کر لیا جائے وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے یعنی اس پربھی مالک کو صدقہ کا ثواب ملتاہے اور جتنا حصہ اس میں سے چرند کھالیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے اور جتنا حصہ اس میں سے پرندے کھالیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتاہے (مسلم)۔ماحولیات اور نباتات کے ماہرین کے مطابق ایک اوسط سائز کادرخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ درخت دن میں کافی رطوبت ہوا میں شامل کرتے ہیں، جس سے درجہ حرارت کم اور ماحول خوش گوار ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے سر سبز وشاداب علاقے بڑے شہروںاور صنعتی علاقوں کی ہوا میں شامل70فی صد سلفرڈائی آکسائیڈ اور نائٹرک ایسڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔
ملک میں بڑھتی آلودگی اور موسمی تبدیلوں سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں۔شجر کاری ملک کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو روکنے کے لیے بارشوں کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے درختوں کا ہونالازم وضروری ہے۔صانع عالم کی صناعی دیکھئے کہ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہوتے ہیںجس سے فضا میںنمی کا تناسب موزوں رہتا ہے اور یہی بخارات اوپر جاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں جس سے بارش ہوتی ہے۔کرونا وبا کے بعدملک کے حالات اور آکسیجن کی کمی کے پے در پے واقعات کے تناظر میں یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوںکی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیاجائے۔ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور شجرکاری کے حوالے سے وقتی اور عارضی مہم کے بجائے مستقل اوردائمی اقدامات کیے جائیںتاکہ ملک کا مستقبل تاب ناک ہو اور ماحولیات کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
q qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS