سول سروسز امتحانات اور خواتین کی نمائندگی کا مسئلہ

0
سول سروسز امتحانات اور خواتین کی نمائندگی کا مسئلہ

عبدالماجد نظامی

ہر سال کی طرح امسال بھی یہ ایک ایسا ہفتہ ہے جس میں مشکل ترین امتحان میں کامیابی کا نتیجہ برآمد ہونے کے بعد پورے ملک میں جشن کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ کامیابیاں حاصل کرنے والے امیدواروں کو مبارکباد اور تہنیت پیش کی جاتی ہے جبکہ منزل سے دور رہ جانے والوں کو مزید حوصلوں کے ساتھ اپنی تیاری جاری رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ موقع سول سروسز امتحانات کے نتائج کے اعلان کا وقت ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ملک کی بہت بڑی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا دائرہ اضلاع کے نظم و انصرام سے لے کر پولیس، انکم ٹیکس، ریلوے کی خدمات اور کئی اہم کلیدی عہدوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان عہدوں پر فائز ہونے والوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ملک اور سماج کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اس میں کریئر کے استحکام کے علاوہ پاور اور رتبہ دونوں موجود ہیں اور اسی لیے سماج کے ذہین ترین اور طویل محنت و جدو جہد کے لیے تیار اسٹوڈنٹس اس راستہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو کامیاب ہوجاتے ہیں، ان کی دیرینہ تمنا پوری ہوجاتی ہے لیکن جو ناکام رہ جاتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کو بہت بہتر انداز میں گزارنے کا ہنر اور معرفت حاصل کرلیتے ہیں، اس لیے انہیں بھی ناکام شمار نہیں کیا جاتا۔ اس برس امیدواروں کی کامیابی قدرے مزید دلچسپ اور قابل افتخار بن گئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں اور خواتین نے اپنی محنت و لگن سے وہ کر دکھایا ہے جو ہمارے ملک کے سیاسی لیڈران ان کے لیے اب تک نہیں کر پائے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن نے کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد933 بتائی ہے، ان میں سے 320 لڑکیوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے اور30فیصد سے کچھ زائد ان کی کامیابی کی شرح بنتی ہے۔ یہ پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک عرصہ سے خواتین کے لیے33فیصد سیٹیں پارلیمنٹ میں مختص کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اب تک اس پر کسی طرح کی سنجیدگی کا مظاہرہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے نہیں کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کو اس ملک کے عوام نے دو دو بار بھاری اکثریت سے فتح یاب بنایا اور جس کے پاس نریندر مودی جیسا مضبوط لیڈر موجود ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ بے لاگ طور پر فیصلہ لیتے ہیں اور جس کا دعویٰ رہا ہے کہ مسلم خواتین کے لیے اتنے فکرمند تھے کہ تین طلاق کا قانون بنا ڈالا،اس پارٹی نے بھی اس کام کو نامکمل رہنے دینا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن جب خواتین کو اپنی ذہنی، فکری اور علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تو انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں مردوں کے مقابلہ زیادہ فکری صلابت اور علمی عمق و گہرائی پائی جاتی ہے۔ اسکول بورڈوں کے امتحانات میں تو تقریباً کئی برسوں سے وہ یہ ثابت کرتی چلی آ رہی تھیں کہ مقصدیت کے ساتھ اپنا کام کرنے اور اپنی منزل کو حاصل کرنے میں مطلوب جدوجہد صرف کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ لیکن سول سروسز امتحانات کے نتائج سے بھی انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مشکل ترین کام اور مشن کی انجام دہی میں بھی ان پر یکساں طور سے اعتماد کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی صلاحیتیں مردوں سے بہتر ہوسکتی ہیں۔ امسال سول سروسز کے یہ نتائج اس لیے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیںکہ سب سے ٹاپ چار رینکوں کو حاصل کرنے والی بھی ہماری بچیاں ہی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جن لوگوں کو اس امتحان کی تیاری کی راہ میں موجود چیلنجوں اور مشقتوں کا اندازہ ہے، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان رینکوں کا حصول کس قدر قابل ستائش امر ہے۔ لیکن ایک بڑا سوال ہمارے سماج میں آج بھی سامنے کھڑا ہے اور ہم سے اس کے جواب کا طالب ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں اب خواتین اور بچیوں کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ ختم ہو جائے گا؟ کیا ماں کی کوکھ سے لے کر ان کی پیدائش اور اس کے بعد تک کے مراحل میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے نازیبا سلوک کو ختم کیا جائے گا؟ کیا گھروں میں ان کے وجود کا جشن اور ان کی ترقی پر اسی طرح خوشی کا اظہار کیا جائے گا جس طرح مردوں کی ترقی پر کیا جاتا ہے؟ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی سطح پر کیا انہیں وہ سارے حقوق دیے جائیں گے جو ان کا دستوری اور بنیادی اور انسانی حق ہے؟ اس ایک سوال سے بے شمار قسم کے جائز سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مناسب جوابات فراہم کرنا ایک مہذب سماج کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہم اس حقیقت سے منہ موڑ نہیں سکتے کہ سرکاری اسکیموں اور میڈیا میں جاری بیداری مہموں کے باوجود خواتین کی حالت اب بھی ابتر بنی ہوئی ہے۔ وہ صرف کھیل کود کے اداروں میں ہی جنسی استحصال کا شکار نہیں ہو رہی ہیں بلکہ گھروں کے اندر بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے جہاں انہیں سسرال والوں کی خواہش بلکہ لالچ کے مطابق جہیز نہ لانے کی قیمت ذہنی اذیت کے وبال سے گزر کر اداکرنی پڑتی ہے اور بعض اوقات تو ان سے جینے کا حق تک وہ لوگ ہی چھین لیتے ہیں جن کے ساتھ وہ یہ سمجھ کر گئی ہوتی ہیں کہ وہ ان کی خوشیوں کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ گاؤں اور چھوٹے شہروں میں تو یہ مسائل بہت سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں لیکن شہروں کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ کئی ہفتوں سے جنتر منتر پر جنسی استحصال کا شکار ہونے والی ہماری وہ بچیاں جنہوں نے اس ملک کو عالمی سطح پر تمغے دلائے اور پوری دنیا میں اس کا نام روشن کیا وہ انصاف کے لیے اپنی آواز اٹھا رہی ہیں اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن اب تک خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے اور مبینہ ملزم کو صرف اس لیے گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے کیونکہ اس کو ارباب اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ حالات کتنے پیچیدہ بنا دیے گئے ہیں اور خواتین کو انصاف مل پانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سول سروسز جیسے امتحانات میں ملنے والی کامیابیاں بہت دقتوں کو دور کرنے کے لیے راہیں ہموار کریں گی لیکن یہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور قیادتوں پر عائد ہوتی ہے، وہ سماج کو عدل و مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل کے لیے تیار کریں اور اس کے مطلوب وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ یہ کام ملک کی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کر سکتی تھی اور اس کے لیے موقع بھی فراہم تھا کہ نئے پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح صدر جمہوریہ محترمہ مُرمو کے ہاتھوں کرواتی جو کہ نہ صرف ایک عورت ہیں بلکہ سماج کے پسماندہ طبقوں کے لیے کامیابی کی مثال بھی ہیں۔ ایسا کرنے سے اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا اور خواتین کی ترقی کے لیے سماج تک ایک مضبوط پیغام بھی پہنچ جاتا۔ لیکن شاید ابھی بطور معاشرہ ہم اس سطح پر نہیں پہنچ پائے ہیں جہاں خواتین کی ترقی کا جشن دل کھول کر منایا جائے اور انہیں یکساں طور پر قبول کیا جائے۔ ایسی حالت میں خواتین کو اپنی ترقی و خوشحالی کے لیے خود ہی مزید کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ عدم مساوات کی یہ دیواریں تیزی کے ساتھ ٹوٹ سکیں اور وہ بے روک ٹوک اپنی طے شدہ منزلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوپائیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS