بہتر مستقبل کیلئے ’بہتر ماضی‘ کا انتخاب ضروری: صبیح احمد

0

صبیح احمد

ایودھیا میں 22 جنوری 2024 کو رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کے چند روز بعد ہی جدید جمہوری ہندوستان کی پیدائش کی یاد دلانے والا یوم جمہوریہ 26 جنوری کو قومی راجدھانی کے کرتویہ پتھ پر منایا گیا۔ اس موقع پر ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکاری طور پر بڑی دھوم دھام اور تیاریوں کے ساتھ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ حسب روایت مہمان خصوصی، وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، معزز حاضرین اور بڑی تعداد میں عام لوگوں کی موجودگی میں صدر جمہوریہ نے پریڈ کی سلامی لی۔ اس کے بعد ہندوستان کی فوجی طاقت اور ثقافتی وراثت کے ساتھ ساتھ اس بار بالخصوص ’ناری شکتی‘ کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ لیکن اس بار علامتی طور پر ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ عموماً یوم جمہوریہ کے موقع پر پورا ملک قومی پرچم ترنگا سے سج جایا کرتا ہے اور لوگوں میں ایک نیا جوش و جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں اس بار تھوڑی کمی دیکھنے میں آئی۔ قومی راجدھانی جہاں یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب ہوتی ہے، کے ساتھ ساتھ کم و بیش ملک کے ہر علاقے میں ترنگے سے زیادہ رام کی تصویروں والے بھگوا جھنڈے لہرا تے ہوئے دیکھنے کو ملے۔ اسے سنگھ پریوار کے سیاسی منصوبے کے ایک پہلو کی تکمیل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ تبدیلی تقریباً تمام خاص و عام نے محسوس کی۔ اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندوستان کے آئینی وژن میں ہونے والی اس نا قابل تلافی خرابی پر ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر کوبڑا دکھ ہو رہا ہوگا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے زیر قیادت تیار کردہ آئین 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا تھا۔ اسی کی مناسبت سے ہر سال 26 جنوری کو ’یوم جمہوریہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قوم کی تعمیر ایک ایسا عمل ہے جو متعصبانہ تشریحات یا نئے تصورات سے بالاتر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں لازوال ’آئیڈیا آف دی نیشن‘ ایک اہم فیکٹر ہے۔ جمہوریتوں میں اس آئیڈیا کی رسمی طور پر آئین میں عکاسی ہوتی ہے۔ جہاں تک ترامیم کی بات ہے، یہ صرف بنیادی خواہشات کو آگے بڑھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ اس عمل کی پیروی تمام سیاسی گروپس کرتے ہیں، حالانکہ ان کے نظریات مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں اس بات کو لے کر آپس میں ایک صحت مند لڑائی ہوتی ہے کہ کون اس ’آئیڈیا‘ کو زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کر سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملک کے ارتقائی سفر اور اس کی تصوراتی تاریخ پر وسیع پیمانے پر متفق ہوتی ہیں۔ ماضی مستقل ہے۔ تاریخ کے تاریک یا ناگوار ٹکڑے(جو کسی بھی قوم کی تاریخ کی وراثت ہوتے ہیں) کو ایک اعلیٰ خودمختار بیانیہ کو برقرار رکھنے کے لیے دبایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے نصاب میں نوآبادیاتی زیادتیوں کے بارے میں کم سے کم بات کی گئی ہے جبکہ امریکہ اپنے نسل پرست ماضی کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ ممالک اپنے پیچیدہ ماضی سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے تاریخ کے مثبت عناصر مثلاً جمہوریت کی روایات، آزادیٔ اظہار، لبرل خیالات اور سیکولرازم کو آگے لاکر ابھارنے کو منتخب کیا۔ لیکن غیر محفوظ یا زوال پذیر جمہوریتوں میں اس طرح کے استقلال کے تمام عناصر کو تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے لیے چیلنج کیا جا سکتا ہے جو بنیادی طور پر ایک متعصبانہ بیانیہ کی حمایت کرتی ہے۔ یہ تاریخ کے تاریک گوشوں کو چھیڑ کر یا سراسر جھوٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے – دونوں ہی صورتوں میں یہ روح کے چھوٹے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نقطہ نظر نتیجہ خیز آئین کے ذریعہ حاصل کردہ بلند روح کو مجروح کرتا ہے۔ ہندوستان کا آئین قوم کے ضمیر کا تشریح کرنے والا اور حکمرانی کے لیے ایک راستہ دکھانے والا ستارہ ہے۔ اس میں ترمیم صرف اس مقدس جذبے کو بہتر بنانے کے لیے کی جاتی ہے۔ مختصراً 63 الفاظ پرمشتمل تمہید آئین کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جسے کچھ منتخبہ الفاظ سے مزین کیا گیا ہے۔ اس کے خود متن کے آغاز میں اجتماعیت کا ایک صحت مند احساس ہے: ’ہم، بھارت کے لوگ…‘ یہ کسی نظریے، ذاتی شناخت کے نشانات یا مذہبیت کے عناصر کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ ان الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے جو اس کی جمہوری روح کو تقویت پہنچاتے ہیں۔جیسے مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارہ۔ 1976 میں ’سیکولر‘، ’سوشلسٹ‘ اور ’قوم کی سالمیت‘ جیسے الفاظ کے اضافہ نے بنیادی روح پر سوال اٹھائے یا اسے کم ترکیے بغیر صرف انصاف اور مساوات جیسے ہندوستان کے بنیادی آئیڈیا کو مضبوط کیا۔
یہ کسی قوم کے لیے خطرے کی علامت ہوتی ہے جب ماضی کا پرزور طریقے سے دوبارہ تصور کیا جاتا ہے اور اسے فعال طور پر ازسر نو تشکیل دیا جاتا ہے – کسی ایسے شخص کو یاد کرنے کے اصلاحی انداز میں نہیں جسے عوامی تصور میں غیر مستحق طور پر چھوڑ دیا گیا تھا، بلکہ ان لوگوں کی بے عزتی اور بے توقیری کی تنگ نظر اور چھوٹی حرکتوں کے ذریعہ، جن کا اب تک احترام کیا جاتا رہا ہے۔ جگہوں اور پروگراموں کے نام تبدیل کیے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں قابل احترام ’بابائے قوم‘ سے لے کر آئین تک ہر کسی پر سخت سوال اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن پستی کی سب سے یقینی نشانی یہ ہے کہ جب ماضی کے چیلنجز کسی قوم کے لوگوں کو متحرک کریں، مرعوب کریں اورمستقبل کے سنگین خدشات سے بے خبر کر دیں۔ کیا ہندوستان کو پھر سے وژن کے تعین کے آثار کا سامنا ہے یا یہ عوامی گفتگو بنیادی طور پرمستقبل کے بارے میں ہے؟ کیا ہم اپنی آئینی جبلتوں کی شمولیت اور سیکولرازم پر فخر کے ساتھ زور دے رہے ہیں یا اکثریت پسندی کی راہ پر چل پڑے ہیں؟
یہ مشکل سوالات ہیں جن کا شہریوں کو خود سے جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے۔ کیا ہم ایسے لوگوں سے مغلوب ہو رہے ہیں جو کچھ کہتے ہیں لیکن کرتے کچھ اور ہیں؟ہندوستان کو اپنی عظمت و جلال اور بے قدری و ذلت کے قدیم ماضی کو ایمانداری اور پختگی کے ساتھ بلاتفریق اپنانا چاہیے، لیکن پھر ماضی کی ان شاندار روایات کا دانشمندی سے انتخاب کرنا چاہیے جو ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کی مدد کرتے ہیں اور اسے مضبوط کرتے ہیں۔ تاریک ’ماضی‘ کے چنے ہوئے حصوں کو ہر گز مستقبل کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ایک 5,000 سال پرانی تہذیب جو خود کو ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ ہونے پر فخر کرتی ہے، یقینا بہتر کی مستحق ہے – اور اس کا مطلب ہے، مستقبل کے لیے بہتر انتخاب اور ماضی کو یاد رکھنے کے بارے میں بھی بہتر انتخاب۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ آئین کے کام کرتے رہنے کے لیے شہریوں کے ذریعہ آئینی اخلاقیات کی آبیاری ضروری ہے۔ موجودہ وقت میں گاڑی پیچھے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ وقت اور تاریخ کا پرزور تقاضہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے آئینی تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی اجتماعی قوت ارادی اور سیاسی جرأت کو متحرک کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS