چین کی چال بازی

0

چین ایک عرصے تک ناقابل فہم ملک رہا ہے۔ دنیا کی بدلتی صورت حال کے ساتھ اس کی پالیسیاں بدلتی رہی ہیں، چینی لیڈروں کے قول و عمل کا تضاد سامنے آتا رہا ہے، اس لیے عالمی برادری کی فہم سے یہ بات بالاتر نہیں رہ گئی ہے کہ چین کی کوئی مستقل پالیسی نہیں، حالات کا رخ اس کی پالیسی متعین کرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بگڑتے حالات پر منعقدہ اجلاس میں اقوام متحدہ، یوروپی یونین، امریکہ، بھارت، برطانیہ، ترکی، جرمنی، ازبکستان، تاجکستان،ترکمانستان، ناروے، پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ چین کے نمائندے شامل ہوئے تھے تو متفقہ طور پر یہ رائے بنی تھی کہ طالبان نے اگر طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اس وقت یہ بات کہی جا رہی تھی کہ کابل تک پہنچنے میں طالبان کو 3مہینے کا وقت لگے گا۔ طالبان نے بڑی کامیابی کی شروعات 6 اگست، 2021 کو کی تھی مگر اس کے بعد وہ آندھی کی طرح آگے بڑھتے رہے۔ 13 اگست کو انہوں نے ایک ہی دن میں کئی ریاستوں کی راجدھانیوں پر قبضہ کر لیا اور 15 اگست کو وہ کابل میں داخل ہوگئے۔ افغان صدر اشرف غنی کو چپکے سے بھاگنا پڑا۔ بھاگتے وقت انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ اب تک جن افغانوں نے ان کی حکومت اور امریکہ کا ساتھ دیا ہے، ان کا کیا ہوگا۔ یہ حالات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ طالبان کے سامنے ڈٹے رہنے کی غنی کی کوئی خاص حکمت عملی نہیں تھی، 20 سال کی جنگ اور کئی برسوں کی افغان فورسز کی ٹریننگ کے باوجود اس صورت حال کا پیدا ہونا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے مگر چینی حکومت ان سوالوں میں الجھنا نہیں چاہتی، وہ موقع سے اسی طرح فائدہ اٹھا لینا چاہتی ہے جیسے 9/11 کے بعد اس نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
چینی حکومت نے دوحہ میں اپنے مؤقف کے برعکس یہ کہا ہے کہ ’ چین افغانستان کے ساتھ دوستی اور مشترکہ تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔‘ رپورٹ کے مطابق، ’چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے طالبان پر زور دیا ہے کہ انہیں اقتدار کی منتقلی کو پرامن اور کھلے ذہن کی شراکت داری پر مبنی اسلامی حکومت کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ افغان اور بین الاقوامی شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔‘ چین طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا یا نہیں، یہ کہنا فی الوقت مشکل ہے مگر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا طالبان کو ’ایک عسکری اور سیاسی حقیقت‘کہنا یہ اشارہ ہے کہ چین طالبان سے دوری بنانا نہیں چاہتا اور ان سے قربت کا اظہار کرنے میں جلدبازی بھی نہیں کرنا چاہتا۔ مطلب یہ کہ چین کی افغانستان پر کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
چینی حکومت نے یہ کہا ہے کہ ’ افغان عوام کو حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود تعین کریں اور چین ان کے اس حق کی قدر کرتا ہے۔‘ مگر سچ تو یہی ہے کہ چین صرف اپنے مفاد کی قدر کرتا ہے۔ اپنے مفاد کی قدر کرنا کوئی غلط بھی نہیں، ایسا سبھی ملک کرتے ہیں، امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ اپنے مفاد کے مدنظر کیا اور جنگ ختم کرنے کا فیصلہ بھی اپنے مفاد کے مدنظر کیا لیکن چین کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ایک فیصلے کو عالمی برادری ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں پاتی کہ دوسرا فیصلہ کر لیتا ہے جیسے اس نے طالبان سے رشتہ استوارکرنے کا اشارہ کر کے کیا ہے۔ اس نے سنکیانگ کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا راج قائم ہو جانے کے بعد اویغور مضبوط نہ ہونے پائیں، طالبان اویغوروں کی مدد کرتے وقت چین سے اپنے رشتے اور مفاد کا خیال رکھیں۔ ایسا ہی کچھ کام اس نے افغان جنگ کے بعد کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کو چین کی حمایت کی ضرورت تھی،حالات سے فائدہ اٹھاکر چینی حکومت نے ان اویغور مسلمانوں کو جنہیں وہ ’علیحدگی پسند‘ کہتی تھی، ’دہشت گرد‘ کہنا شروع کیا۔ 2008 میں بیجنگ میں اولمپکس کا انعقاد ہوا تو چینی حکومت نے بار بار اس شبہ کا اظہار کیا تھا کہ اویغوروں کی طرف سے بڑے حملے ہوسکتے ہیں مگر اس کا جواب اویغور لیڈروں نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ وہ ان کے خلاف مظالم کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ اس وقت اویغوروں کے ایشو پر امریکہ اتنا متحرک نہیں تھا جتنا آج ہے مگر آج چین کو اویغوروں کے خلاف امریکہ کی نہیں، طالبان کی ضرورت ہے،چنانچہ کبھی طالبان کے خلاف ’دہشت گردی مخالف جنگ‘ کا حامی چین آج انہیں طالبان سے رشتہ رکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے اس نے کابل میں اپنا سفارتخانہ پوری طرح بند نہیں کیا ہے۔ اس صورت حال پر امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کو توجہ دینی چاہیے، ہندوستان کے لیے بھی یہ صورت حال قابل غور ہونی چاہیے، کیونکہ طالبان کا چین کے قریب آنا اس خطے کے لیے ٹھیک نہیں، افغانستان کو تنہاکرنے کی کوشش کی جائے گی تو طالبان کے چین کے قریب آنے کا اندیشہ اور بڑھے گا۔ یہ اندیشہ کیسے ختم ہو،اس پر سوچنا وقت کا تقاضا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS