اُپیندررائے
کورونا دنیا کے ہاتھ لگی ایسی پہیلی بن گئی ہے، جس کے بارے میں جتنے جواب ملتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ نئے سوال اس کے ساتھ جڑجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ کورونا کی ’’پیدائش‘‘ سے منسلک ہوگیا ہے۔ سخت مشقت کے بعد اس کی ’جنم بھومی‘ کی تلاش تو پوری ہوگئی، لیکن لگتا ہے کہ اس تحقیق نے کورونا کی پیدائش سے جڑے ایک ایسے راز کو بے پردہ کردیا ہے جو کسی گہری سازش کا اشارہ ہے۔
کورونا دنیا میں کیسے آیا، اس سے متعلق گزشتہ ایک سال میں جتنے منھ، اتنی باتیں سنی گئی ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر یہی بتایا گیا کہ چین میں پیدا ہوا یہ وائرس شاید چمگادڑ سے انسانوں میں کسی دیگر جانور کے ذریعہ سے آیا ہوگا۔ اس حقیقت تک پہنچنے کے لیے دنیا کی اعلیٰ صحت تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ٹیم نے چینی سائنسدانوں کے ساتھ کورونا بلاسٹ کے شروعاتی مرکز ووہان میں تقریباً چار ہفتے کا وقت گزارا۔ ڈبلیو ایچ او نے بھلے ہی ووہان کی لیب سے کورونا وائرس کے نکلنے کی تھیوری کو خارج نہیں کیا، لیکن اس امکان کو کبھی خاص توجہ بھی نہیں دی۔
اس کے باوجود چین سے متعلق مغربی ممالک کا شک دور نہیں ہوسکا، خاص طور پر وہ امریکہ کے رڈار پر مسلسل بنا رہا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے صدارتی عہدہ کے الیکشن میں یہ مسئلہ بارہا اٹھا اور ڈونالڈ ٹرمپ اسے چینی وائرس کا تمغہ دیتے رہے۔ چین بھی ایشیائی مخالفت کی آڑ لے کر سوالات سے بچتا رہا اور بات آئی گئی ہوتی رہی۔ لیکن اب یہ بات نکل کر سامنے آرہی ہے کہ امریکہ اور یوروپ سمیت مغربی ممالک کا شک غلط نہیں تھا۔ آسٹریلیا سے آئے نئے ثبوتوں نے اس شک کو مزید گہرا کردیا ہے۔ حالاں کہ ان ثبوتوں کا ذریعہ بھی پہلے کی ہی طرح امریکہ ہی ہے، لیکن اس مرتبہ سامنے آئیں معلومات زیادہ قابل اعتماد نظر آرہی ہیں۔ ’دی آسٹریلیا‘ اخبار نے امریکی افسران کے ہاتھ لگے کچھ چینی خفیہ دستاویز کو بنیاد بناتے ہوئے شبہ کا اظہار کیا ہے کہ سال 2019میں سامنے آیا کورونا وائرس دراصل چین کا ایک حیاتیاتی ہتھیار(Biological weapons) ہوسکتا ہے، جس کی تیاری سال 2015میں ہی شروع ہوچکی تھی جیسا کہ اس کے خفیہ دستاویز میں ذکر ملتا ہے۔ پوری تیاری تیسری عالمی جنگ سے متعلق ہے، جسے چین روایتی ہتھیاروں کے بجائے حیاتیاتی ہتھیاروں سے جیتنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
بیشک اتنے کھلے طریقہ سے نہیں، لیکن چین کے اس منصوبہ کے بارے میں امریکہ پہلے بھی وقت وقت پر دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے۔ لیکن ان معلومات کا اس طرح عام ہوجانا پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ آسٹریلیائی اخبار میں امریکی افسران کو بنیاد بناکر ہوئے اس انکشاف پر امریکہ نے اب تک کسی طرح کی وضاحت نہ دے کر ایک طرح سے اسے خاموش منظوری ہی دی ہے۔ چین نے ضرور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایسے کسی بھی منصوبہ کو خارج کیا ہے۔ لیکن اس تازہ انکشاف نے اس آگ کو ایک مرتبہ پھر ہوا دے دی ہے، جس کی تپش میں پوری دنیا سلگ رہی ہے۔ اس پر یقین کرنے کی ایک اور وجہ چین کی مشہور سائنسداں اور وبائی امراض کی ماہر لی مینگ یین نے دی ہے، جن کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کی ایک ایک معلومات پوری طرح درست ہیں۔ یین کے مطابق چین تیسری عالمی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اور کورونا وائرس اس کی فوج پی ایل اے کی لیب سے نکلا حیاتیاتی ہتھیار ہے۔ یین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سال 2019میں ووہان میں کورونا لیک ہونے کے سبب نہیں پھیلا تھا، بلکہ پی ایل اے نے اس کا ٹرائل کیا تھا اور اس کے بے لگام ہوجانے کے سبب ووہان میں حالات خراب ہو گئے تھے۔
کورونا کے حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا دعویٰ کئی پیمانوں پر سچ لگتا ہے۔ چوں کہ اس کے بارے میں چین کی حکومت کو سب کچھ پہلے سے معلوم رہا ہوگا، اسی لیے چین نے اس کے پھیلاؤ کو فوراً روک لیا۔ اس وائرس کا ایک ہدف صحت خدمات کو نقصان پہنچا کر اور معیشت کو تہس نہس کرکے دشمن ممالک کو گھٹنے پر لانا بھی بتایا جارہا ہے۔ چین کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہا ہے۔ ویسے تو گنے چنے ممالک کو چھوڑ کر زیادہ ترممالک کو چین اپنا دشمن ہی مانتا ہے، لیکن آج کے دور میں اس کی آنکھوں میں کھٹکنے والے دو نمایاں ممالک ہندوستان اور امریکہ ہی ہیں۔ بیشک یہ دونوں ہی ملک چین کی طرح آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں، لیکن صرف اسی حقیقت کی بنیاد پر انہی دو ممالک میں کورونا کی سب سے بڑی مار کا پڑنا صرف اتفاق نہیں ہوسکتا۔ اپنے لاکھوں شہریوں کی قربانی کے ساتھ ہی دونوں ممالک کو معاشی محاذ پر بھی بڑی قربانی دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس کا اثر کورونا سے بچ کر زندہ رہ گئے لوگوںپر پڑرہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس چین کی معیشت حیران کن طور پر کافی کم وقت میں پرانی چمک دمک والی حالت میں پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ سال بے حد خراب شروعات کے باوجود چین معیشت میں اضافہ کرنے والا واحد ملک رہا۔ حالاں کہ یہ اضافہ 2.3فیصد رہا جو دہائیوں میں سب سے خراب تھا۔ لیکن سال2021کی پہلی سہ ماہی آتے آتے سب کچھ بدل گیا۔ چین نے 1992کے بعد معیشت میں سب سے بڑی اچھال درج کرتے ہوئے گزشتہ سال کے مقابلہ میں 18.3فیصد کا اضافہ حاصل کرلیا۔ اگر یہ صرف چین کی محنت کا ہی نتیجہ ہے تب تو اسے بہت پہلے دنیا کی سب سے بڑی معیشت والا ملک بن جانا چاہیے تھا۔
بہرحال یہ نیا انکشاف چین کو کٹہرے میں کھڑی کرنے والی بحث کو نئی سمت دینے کا کام کرے گا۔ بیشک دنیا کے پولرائزیشن کے درمیان ایشیائی مخالف جذبہ کو خارج نہیں کیا جاسکتا، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وبا کے درمیان چین کے خلاف اٹھنے والی سبھی آوازیں اس کے دشمن ممالک سے ہی اٹھی ہوں۔ کئی چینی سائنسداں، ہیلتھ ورکرس، صحافیوں اور شہریوں نے اپنی جان کا خطرہ اٹھاتے ہوئے کورونا کے پھیلاؤ سے متعلق دنیا سے ایسی اہم معلومات شیئر کی ہیں جو چین کی چالبازیوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ ان معلومات کو محض ذرائع کی وجہ سے خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔ ایسے میں ڈبلیوایچ او سے لے کر اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیموں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس چیلنجنگ وقت میں وہ اپنی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی کرنے کے لیے سامنے آئیں اور انسانیت کو بچانے کی اپنی ذمہ داری کا فرض نبھائیں۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)