حالات کیوں بگڑنے لگے؟

0

الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرالہ اور پدوچیری میں اسمبلی انتخابات کرانے کی تاریخوں کا اعلان کیا تھا تو لوگوں کو حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ کمیشن مغربی بنگال میں 8 مرحلوں میں کیوں انتخابات کرانا چاہتا ہے؟ کیا اتنے بڑے ملک کے پاس اتنی سہولتیں نہیں کہ ایک ریاست میں انتخابات دو یا تین مرحلوں میں کرائے جا سکیں؟ مگر الیکشن کمیشن نے کسی کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ وہ ہمیشہ متحرک نہیں ہوتا، وہ کب متحرک ہوتا ہے، یہ ملک کے لوگ جان چکے ہیں اور اسی لیے ٹی این سیشن کے دور کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں مگر ہندوستان کا ہر الیکشن کمشنرٹی این سیشن جیسا ہوجاتا تو انہیں لوگ کیوں یاد کرتے؟ حیرت اس بات پر بھی تھی کہ ملک میں کورونا کے حالات اتنے بدتر ہیں اور 8 مرحلوں میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں تو ملک کی عدالتیں اس کانوٹس کیوں نہیں لیتیں؟ اس وقت اس طرح کی باتیں کہی جاتی تھیں کہ ہمارے یہاں جن ریاستوں میں الیکشن ہوتا ہے وہاں کورونا پھٹکتا نہیں ہے، البتہ الیکشن ہوتے ہی وہاں وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگتا ہے۔ ایسا واقعی مغربی بنگال کے ساتھ ہوا اور آج وہاں کے حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ 30 مئی تک کے لیے سخت لاک ڈاؤن کرنا پڑا ہے۔ لاک ڈاؤن کے درمیان صرف ضروری اشیا کی ہی خرید و فروخت میں چھوٹ رہے گی۔ اسکول، کالج، میٹرو سروسزسب کچھ بند رہیں گی۔ شاپنگ مالس، جم اور ریستوراں بھی نہیں کھلیں گے۔ممتا حکومت نے سیاسی اور مذہبی تقریبات پربھی پوری طرح سے پابندی عائد کر دی ہے، البتہ ای کامرس سروسز چالو رہیں گی۔ یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف وبا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی، اس لیے لوگوں کو احتیاط برتنی ہوگی، ان لوگوں کو بھی احتیاط برتنی ہوگی جو ملک کے دیگر حصوں میں وبا کی توسیع کی خبروں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے لیڈروں کی حمایت میں انتخابی ریلیوں میں جایا کرتے تھے اور ان لوگوں کی بڑی تعداد دیکھ کر لیڈران خوش ہوا کرتے تھے۔ اس وقت نہ کسی لیڈر نے یہ ضرورت محسوس کی تھی کہ لوگ کم آئیں تاکہ دوری کا خیال کرسکیں، نہ ریلیوں میں شامل لوگوں کے درمیان دوری بنائے رکھنے کی سنجیدہ کوشش الیکشن کمیشن کی طرف سے ہوئی تھی اور نہ ہی لوگوں نے خود اس بات پر زیادہ توجہ دی تھی۔ اس وقت ان کے لیے اپنے لیڈروں کی جیت ہار زیادہ معنی رکھتی تھی اور آج ان کی اپنی اور اپنوں کی زندگی کی جیت ہار زیادہ معنی رکھتی ہے مگر وہ لیڈران جو زیادہ بڑی بھیڑ دیکھ کر خوش ہوتے تھے، کیا ان کے لیے بھی لوگوں کی زندگی کی جیت ہار زیادہ معنی رکھتی ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے لوگوں کو خود یہ دیکھنا ہوگا کہ اسپتالوں کا کیا انتظام ہے، کورونا ٹیسٹنگ، ویکسی نیشن، آئی سی یو بیڈس ، وینٹی لیٹرس اور آکسیجن کا کیا انتظام ہے؟
مدراس ہائی کورٹ نے کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافے کے لیے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ عدالت عالیہ نے یہ کہا تھا کہ غیر ذمہ دارانہ سلوک کے لیے الیکشن کمیشن کے خلاف قتل کا کیس درج کیا جانا چاہیے۔ اس پر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی پناہ میں چلا گیا تھا۔ اسے لگا تھا کہ ہائی کورٹ کی بات ٹھیک نہیں مگر سنوائی کے دوران جسٹس چندرچوڑ نے یہ بات کہی تھی کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ قتل کا الزام لگانے سے (آپ) پریشان ہیں۔ میں اپنی بات کروں تو میں ایسی بات نہیں کرتا لیکن ہائی کورٹ کا لوگوں کے حقوق کو محفوظ رکھنے میں ایک بڑا رول ہے۔‘ وہیں جسٹس شاہ نے یہ بات کہی تھی، ’آپ ہائی کورٹ کی باتوں کو اسی طرح لیجیے جیسے ڈاکٹر کی کڑوی دوا کو لیا جاتا ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ اب مغربی بنگال کے حالات خراب ہونے لگے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت متاثرین کی تعداد میں اضافہ، اموات میں اضافہ اور لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہونا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن یہ کہہ سکتا ہے کہ مغربی بنگال کے ان حالات کے لیے 8 مرحلوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ اور بھیڑ یکجا کرنے کی نیتاؤں کو ملی چھوٹ نے کوئی رول ادا نہیں کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ کورونا کے دور میں نیتاؤں کی حقیقتیں بھی سامنے آگئی ہیں اور اداروں کی بھی۔ عام آدمی کے تئیں حساسیت بہت کم پائی جاتی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ خود عام لوگوں کو بھی حقائق کا احساس کم ہے۔ وہ اگر دانشمندی دکھاتے تو حالات شاید ایسے نہ ہوتے؟ وہ نیتاؤں سے یہ سوال کرتے کہ آپ نے لوگوں کی جانیں بچانے کا کیا انتظام کیا ہے مگر انتخابات میں مذہب اور ثقافت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے تو بھلاکسی اور سوال کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے! یہ سوال جواب طلب ہے کہ کیا ان حالات سے لوگ سیکھیں گے؟ فی الوقت جواب دینا مشکل ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS