مغربی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
مغربی ایشیا کے دوبڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک اورایک دوسرے کے خاص حریف ایران اورسعودی عرب نے چین کی ثالثی کے سبب دوبارہ سفارتی تعلقات کو بحال کرنے اورسفارت خانے کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سال 2016میں تب شروع ہوئی تھی جب سعودی عرب نے شیعہ مذہبی رہنمانمرالنمر کے ساتھ 47؍افراد کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ایران میں زبردست احتجاج ہوا اورمظاہرین سعودی عرب کے سفارتخانہ میں داخل ہوگئے۔ بعد ازاں ایران اورسعودی عرب کے مابین تجارت،سرمایہ کاری اورثقافتی تعلقات ختم ہوگئے۔ پھر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرزمین پر اپنے سفارتخانے بند کردئے تھے۔ بہر حال تازہ ترین حالات کا اگرجائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے چند دنوں قبل چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات کی جس کے دوران خطے میں سلامتی اوراستحکام لانے کیلئے ملکر کام کرنے کا عہد کیا۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ سعودی عرب اورایران نے دوماہ کے اندر دونوں ممالک میں سفارتخانے کھولنے پر اتفاق کیا۔
سعودی عرب اورایران دونوں ہی مغربی ایشیاء کے طاقتور ممالک ہیں اورعلاقائی بالادستی کیلئے برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ یا بلا واسطہ متصادم رہے ہیں۔ تاریخی نقطہ نظر سے سعودی عرب خود کو مسلم دنیا کا تنہا رہنما مانتاہے ،لیکن 1979ء میں ایران میں آئے اسلامی انقلاب نے اس کی اس حیثیت کو چیلنج کیا۔ سعودی عرب اور ایران اسلام کے الگ الگ مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایران میں زیادہ تر شیعہ مسلمان ہیں ،وہیں سعودی عرب ایک سنی اکثریتی مسلم ملک ہے۔ یہ نظریاتی تقسیم دوسرے مغربی ایشیاء کے ممالک میں بھی نظرآتی ہے جہان سنی اورشیعہ مسلمانوں کے الگ الگ گروپ ہیں۔ مذہبی گروپوں میں منقسم مغربی ایشیاء کے کچھ ممالک حمایت کیلئے ایران کی طرف دیکھتے ہیں اورکچھ سعودی عرب کی طرف۔ ظاہر ہے سعودی عرب-ایران کے اس تنازعہ کو مغربی ایشیاء کے استحکام کیلئے ختم کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ نہ صرف دونوں ممالک کیلئے ، بلکہ علاقائی امن کیلئے بھی نقصاندہ ثابت ہورہاتھا۔
مغربی ایشیاء کے علاقے میں چین کی دلچسپی راتوں رات نہیں بڑھی ہے۔ اپنے عالمی کردار کی توسیع کیلئے چین کئی بین الاقوامی منصوبے چلارہاہے۔ ’ایک بیلٹ ایک روڈ ‘پروجیکٹ کے ذریعہ چین ایشیائی اورافریقی ممالک میں اپنی موجودگی درج کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے گوادر بندرگاہ سے ایران کے چابہار بندرگاہ تک چین انفر اسٹرکچر کی تعمیر کو بڑھاوا دے رہاہے۔ ساتھ ہی نئے سلک روڈ کے تحت چین-پاکستان ایکنومک کوریڈور کے طرز پر تہران کو شن جیانگ سے جوڑنے جارہاہے ۔ اس سے چین وسط ایشیائی ممالک (قزقستان، کرگستان،ازبکستان اورترکمنستان)سے ہوتے ہوئے ترکی کے راستے یوروپ تک رسائی میں کامیاب ہوگا۔ مغربی ایشیاء میں چین کے بڑھتے کردار نے امریکہ اورروس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔ امریکہ اوریوروپی ممالک کے روس -یوکرین جنگ میں مشغول ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین مغربی ایشیاء میں زیادہ سرگرم ہواہے۔ ایران اورسعودی عرب کے مابین امن معاہدہ کراکر چین نے عالمی سطح پر اپنا اعتبار بڑھانے کی بھی کوشش کی ہے۔
ہندوستان کے نظریے سے ایران اورسعودی عرب مساوی طو رپر اہم ہیں۔ حالیہ سالوں میں مغربی ایشیائی ممالک خصوصاً خلیج ممالک کے ساتھ ہندوستان نے اپنی ثقافتی اورتجارتی اشتراک کی توسیع کی ہے۔ اس میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ وسیع اقتصادی اشتراک معاہدہ بھی شامل ہے۔ ایران کا چابہار بندرگاہ ہندوستان کیلئے اہم ہے جس کے ذریعہ ہندوستان کافی اہم پروجیکٹ’ نارتھ-ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور ‘ چل رہاہے۔ وہیں سعودی عرب ہندوستان کیلئے تجارتی نظریہ سے اہم ہے۔
ہندوستان نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن دونوںممالک کے مابین تعلقات کی بحالی نہیں بلکہ مغربی ایشیا میں چین کی موجودگی نے ہندوستانی قیادت کو تشویش میں ڈال دیاہے۔ ہندوستان کا مغربی ایشیاء کے ممالک سے خصوصی رشتہ ہے۔ مغربی ایشیاء کے ممالک میں بڑی تعداد میں ہندوستانی رہتے ہیں، جو ہرسال تقریباً 35-40؍ ارب ڈالر ہندوستان بھیجتے ہیں جبکہ چینی شہریوں کی موجودگی اس علاقے میں کافی کم ہے۔ ہندوستان میں بڑی تعداد میں مسلم فرقہ کی آبادی ہے جس کے سبب ہندوستان اورمغربی ایشیاء کے درمیان فطری اشتراک ممکن ہے۔ وہیں چین کی ایغور مسلمانوں کے تئیں معیناندانہ اور اسلام کے تئیں غیرمتناسب سلوک اس کو اس علاقے کا فطری حصہ دار بننے میں اڑچن پیدا کرسکتاہے۔ اگرچہ ادھر کچھ سالوں سے ہندوستان کی حکمراں جماعت کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ اطمینان بخش نہیں رہاہے پھربھی چین کے مقابلے بہتر ہی کہاجائے گا۔ پاکستان اورسری لنکامیں چینی موجودگی کے بعد بگڑتے اقتصادی حالات کو دیکھتے ہوئے سبھی ممالک میں تشویش ہے۔ ایسے میں ایران میں چین کی موجودگی ہندوستانی سرمایہ کاری اورسلامتی کیلئے مشکلیں پیدا کرسکتی ہے۔
ہندوستان کی وسط ایشیاء تک ہونے والی رسائی میں بھی رکاوٹ پیداہوسکتی ہے۔ چین کی طالبان سے بات چیت چل رہی ہے۔ ایسے میں افغانستان میں طالبان کا لمبے عرصے تک برسر اقتدار رہنے کے آثار بن رہے ہیں جس سے ہندوستانی مفاد متاثر ہوسکتاہے۔ چین کی اس علاقے میں موجودگی ہندوستانی کمپنیوں کو ایران اورافغانستان میں سرمایہ کاری اورتجارتی امکانات کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ اگرچہ ایران -سعودی عرب معاہدہ کے ذریعے روس اورامریکہ کو پیچھے چھوڑ کر چین نے اپنا عالمی کردار پیش کیاہے جس کے ذریعے چین عالمی برداری کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن ابھی یہ اندازہ نہیں لگایاجاسکتاکہ اس معاہدے کے بعد مغربی ایشیاء کی جغرافیائی سیاست میں کتنا استحکام پیداہوگا۔ جو بھی مغربی ایشیاء میں چین کی موجودگی نے بین الاقوامی سیاست میں ایک نئے ابعاد کی شروعات کی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS