چین کی معیشت سخت آزمائش سے دو چار

0
چین کی معیشت سخت آزمائش سے دو چار

عبدالسلام عاصم

سابقہ دہائی میں عالمی سیاسی اتھل پتھل کا راست اور بالواسطہ دونوں طریقے سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی طور پر چین نے دنیا کی تیسری بڑی طاقت سے آگے برھتے ہوئے جاپان کی جگہ لے لی تھی اور اس کے ارادوں کی منزل کہیں اور نہیں بیجنگ ہی تھی جسے عالمی اقتصادی ہیڈ کوارٹر بنانا تھا۔ دنیا کی بڑی طاقت بن کر ابھرنے کے رُخ پر جاری اس سفر کے دوران بیشترتجزیہ کار چین کے تین دہائیوں پر مشتمل اقتصادی سفر نامے کو سامنے رکھ کر یہی نتیجہ اخذ کر رہے تھے کہ نئی الفی کی دوسری دہائی ختم ہوتے ہوتے چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آجائے گا۔
یہ منظرنامہ اتنی تیزی سے بدلے گا، اس کا بہت کم لوگوں نے اندازہ لگایا تھا۔ آج کا چین بظاہر سابق سوویت یونین کے راستے پر ہے۔ سوال ہے ایسا کیسے ہوا! چین کے صدرشی جن پنگ نے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے بیسویں نیشنل کانگریس میں ہی بڑے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ایک عظیم اشتراکی ملک کی حیثیت سے چین عالمی اور اقتصادی قوت بن کر دنیا کی قیادت کرنے جا رہا ہے۔ اب چینی امور کے ایک سے زیادہ ماہرین کے نزدیک چین کی معیشت کی رفتار اس قدر سست ہو گئی ہے کہ وہ سنبھالا لیتے لیتے بھی بہت پیچھے چلا جائے گا جہاں سے آگے کا سفر اس کیلئے بھی اتنا ہی دشوار ہو سکتا ہے، جتنا بہ اسبابِ دیگر سابق سوویت یونین کیلئے تھا۔
سیکس اور تولیدی عمل کو لازم اور ملزوم نہ رکھنے کی مغرب کی پالیسی نے وہاں اگر نئی نسل اور بزرگوں کے درمیان ایک خلا پیدا کیا ہے تو چین میں بھی ایک بچے کی پالیسی اور لڑکیوں والے حمل کو ضائع کرنے کی غیر سائنسی روش نے دونسلوں کے بیچ ایک بحران کھڑا کر دیا ہے۔ امریکہ اور یوروپ جیسے اہم تجارتی شراکت داروں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے ماحول میں آبادی کا بحران چین کیلئے زیادہ موجبِ تشویش ہے۔ مغرب نے تو ازالے کی آسان راہیں ڈھونڈ لی ہیں۔ ایک طرف وہ ذہین ایشیائی نئی نسل کا اپنے یہاں خیرمقدم کر رہا ہے تو دوسری جانب آرٹیفیشئیل انٹیلی جینس یعنی مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے ذریعہ معیشت کو نہ صرف سنبھالنے بلکہ آگے لے جانے میں بھی کامیاب ہے۔ چین اس محاذ پر اس طرح کامیاب نہیں، اس نے سائنسی علوم کو ذہانت سازی سے زیادہ اشیا سازی میں بڑے پیمانے پر صرف کر کے خدا کی بنائی دنیا کے بعد سب کچھ میڈان چائنا دکھانے میں تو کامیابی حاصل کرلی لیکن اپنی افرادی قوت اور مشینوں کا استعمال بالترتیب عالمانہ اور ذہانت پسندانہ کم اور تجارت پسندانہ زیادہ کرنے کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
تازہ منظر نامے میں چین کی اقتصادی سست روی نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ہوش اڑا دیے ہیں، جو سرمایہ لگا چکے ہیں وہ پریشان ہیں تو جو سرمایہ لگانے کی سوچ رہے تھے، وہ محتاط ہو گئے ہیں۔اس بیچ چینی کرنسی Yuan گزشتہ سولہ برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اس بابت کوئی اختلاف نہیں کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد امکانات سے زیادہ اندیشوں نے دنیا کی سبھی بڑی معیشتوں کو گھیر لیا تھا۔ ہندوستان بھی زد میں تھا لیکن اقتصادی سہل کاری کا ما حول ہونے کی وجہ سے بات اتنی نہیں بگڑی کہ سنبھالے نہ سنبھلے۔ اسی کے ساتھ ہر آزمائش کو موقع میں بدلنے کی پالیسی نے بھی بہت ساتھ دیا۔ چین میں کووڈ کے بعد ترقی وہ رفتار نہیں پکڑ سکی جس کی امید کی جارہی تھی۔ صارفین کی قیمتیں گر تی رہیں، رئیل اسٹیٹ کا بحران گہرا ہوتا رہا ہے اور برآمدات زوال پذیر رہیں۔اس صورت حال سے نوجوانوں میں بے روزگاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ حکومت نے ڈیٹا شائع کرنا بند کر دیا۔ چین کس قدر پردہ پوشی سے کام لیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اُس کے ارکان کی تعداد نو کروڑ51لاکھ ہے لیکن آج تک اس دعوے کی تائید میں کوئی فہرست سامنے نہیں آئی۔
چین کے ساتھ ایک اور دشواری یہ ہے کہ وہ دنیا پر غلبے کیلئے ابھی تک اپنی یساری نظریاتی سوچ سے باہر نہیں نکلا۔ نتیجے میں درونِ ملک بھی پرائیویٹ کاروبار کی اجازت کے باوجود حکومت اور پرائیویٹ کاروباریوں کے درمیان مسابقت کو وہ فروغ نہیں ملا جو ہندوستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہاں حکومت اپنی مداخلت کو کسی رکاوٹ میں ہرگز بدلنے نہیں دیتی۔ چین بظاہر ایسا نہیں کر پایا۔ خارجی محاذ پر چین کی علاقائی پالیسی بھی غیر دوراندیشانہ نظر آتی ہے۔ ہندوستان سمیت ایک سے زیادہ ہمسایوں کے ساتھ چین کے تعلقات مسلسل کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ باوجودیکہ چین یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ اس کے پڑوسیوں کو تشویش کی جائز وجوہات ہوسکتی ہیں۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چینی اقتصادی پالیسی رفتار زمانہ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس نے سابق سوویت یونین کی غلطی دہرا دی ہے، جس نے مزدوروں پر ظلم کے ذریعہ اپنی صنعتی ترقی کی آہنی پردہ داری کی تھی اور نئی تکنیک تک عدم رسائی کی قیمت اسے اپنے وجود کے بکھراؤ کے ذریعہ ادا کرنا پڑی تھی۔ چین نے بھی کمپیوٹرائز برقی اور غیر برقی مصنوعات و آلات سازی کی معلومات کی ویسی ہی پردہ داری کی اور وقتی فائدے کے ساتھ طویل مدتی نقصان کا سودا کر بیٹھا ہے۔
توکیا چین کا شیرازہ بھی سابق سوویت یونین کی طرح بکھر سکتا ہے؟ بظاہر یہ سوال اتنا سیدھا نہیں کہ سیاسی تجزیہ نگاری سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر فوراً اس کا اطمینان بخش جواب دے دیا جائے۔ بباطن چین میں جو سیاسی اور سماجی اضطراب کا ماحول ہے، اُس پر نظر رکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ زمانے کی رفتار میں تیزی کی وجہ سے جاری دہائی کے ہی کسی موڑ پر دنیا کو اکیسویں صدی کے اولین چونکانے والے انقلاب کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سابقہ صدی کی آخری دہائی کے آغاز میں ایسے انقلاب کا میدانی سامنا اورنظریاتی مشاہدہ کرنے والی نسل کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے جس سے وہ محرکات پوشیدہ نہیں جو کسی بڑے واقعے یا سانحے کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔
اتنا تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ چین میں1921میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد روس میں آنے والے انقلاب سے متاثر ہو کر ہی رکھی گئی تھی۔کارل مارکس اور لینن کی فکر سے اتفاق کا دائرہ اُن دنوں اس تیزی سے وسیع ہورہا تھا کہ سرمایہ داراوردینداردونوں نے باہمی اختلافات ختم کرکے جارحانہ انداز میں دفاعی محاذ قائم کر لیا تھا۔ اس رُخ پر ذو قطبی دنیا کے ہر ناموافق واقعے کا یہ دونوں طاقتیں مل کر سامنا کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور سابق سوویت یونین کی دوستی کو خطرے کی شکل میں دیکھ کر پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کی مذموم سیاست شروع کی گئی جس کا سلسلہ کس انجام تک دراز ہوا، اس کی تاریخ اس سے پہلے کے واقعات اور سانحات کی تاریخ سے زیادہ معتبر انداز میں آن ریکارڈ موجود ہے۔
کہتے ہیں تاریخ کو دہرانے کا عمل کسی نہ کسی حلقے کی جانب سے ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تودنیا سے آنکھیں ملانے کی فوجی طاقت حاصل کرنے کے بعد چین نے اقتصادی رخ پر رفتار زمانہ سے اپنی ہم آہنگی کواپنے توسیع پسندانہ عزائم سے اسی طرح جوڑ دیا ہے جس طرح برطانیہ نے اپنی اوراپنی کالونیوں کی فوجی طاقت کو استعمال کیا تھا۔ چین کا مقصد 2010 سے 2020تک اپنی معیشت کے سائز کو دوگنا کرنا تھا اور درون ملک غریبی کے خاتمے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے چھ فیصد سالانہ ترقی کو اس نے لازمی بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اس کے لیے اُس نے جو اقتصادی چالیں چلیں، وہ دنیا پر مرحلہ وار منکشف ہوتی گئیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 2020 کے لیے جو پیشین گوئی کی گئی تھی، اس میں پورے سال کے دوران چین میں ایک عشاریہ آٹھ فیصد ہی اضافہ نظر آیا۔ یہ دوٹوک زوال ہے اور اسے1976میں ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کے آخری سال کے بعد کی بدترین سالانہ کارکردگی سمجھا جاتا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS