محمد عباس دھالیوال
ایک لمبے عرصے سے چین و امریکہ تائیوان کو لے کر آمنے سامنے رہے ہیں اب ایک مرتبہ پھر سے تائیوان کو لے کر امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان فون پر گفت و شنید ہوئی ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ تائیوان گزشتہ ایک لمبی مدت سے چین کی طرف سے قبضے کے مسلسل خوف کے سائے تلے چل رہا ہے۔ جبکہ چین تائیوان کے اس جزیدے کو اپنے علاقوں کا حصہ خیال کرتا ہے اور کہہ چکا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس جزیرے کو واپس لے سکتا ہے۔ تائیوان وہ جزیرہ ہے جو خود مختار ہے اور جمہوری طرزِ حکومت رکھتا ہے اور امریکہ سے غیر رسمی طور پر دفاعی مدد بھی حاصل کرتا ہیاے ایف پی کی ایک نیوز رپورٹس کے مطابق جمعرات کو چین کے صدر شی جن پنگ نے صدر جو بائیڈن کو ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو میں متنبہہ کیا کہ تائیوان کے معاملے پر آگ سے کھیلنے سے گریز کیا جائے۔ جبکہ ادھر وائٹ ہاوس کا کہنا تھا مذکورہ گفتگو کا مقصد سپرپاورز کے درمیان ناہموار تعلقات کو بہترکرنا تھا۔خبریں یہ بھی ہیں کہ روس نے بھی تائیوان پر چین کے موقف پر اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔اس سلسلے میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے ایک گفتگو کے دوران کہا: ’’ ہم چین کی خود مختاری اور اس کی علاقائی استحکام کا احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کو اس بارے میں سوال اٹھانے یا دیگر اشتعال انگیز اقدامات لینے کا حق نہیں ہے‘‘۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ایسے رویے صرف نئی کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں۔ بیجنگ بھی ایسے وقت میں روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائے رکھنا چاہتا ہے جب مغرب روس کے صدر ولادی میر پوتن کی حکومت کو دنیا کے معاشی مراکز اور سفارتی محاذوں پر یوکرین پر حملے کے سبب، تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ دراصل یوکرین پر روس کے حملے نے اس بارے میں خطرات کو بڑھاوا دیا ہے کہ بیجنگ بھی اپنے چھوٹے اور کمزور پڑوسیوں کے علاقوں کو ان سے علیحدہ کر سکتا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے کو لے کر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڑاؤ لیجان نے نینسی پلوسی کے دورے کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ اس دورے کے ردِعمل میں سخت اقدامات اٹھائے گا۔ جس طرح سے دنیا میں اقتصادی حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ دراصل صدر بائیڈن دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت چین کے ساتھ کام کرنے کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ایسی حکمت عملی بھی طے کرنے کی کوشش میں ہیں جس سے چین کے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو محدود کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔
اگر کہا جائے تو شروع سے ہی ایک طرح سے واشنگٹن کو چین کی عالمی صحت، معیشت اور انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں پر اختلاف رہا ہے اور چین کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت سے انکار نے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ چین تائیوان کو اپنے علاقے کا حصہ سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیجنگ کہہ چکا ہے کہ امریکی ہاؤس اسپیکر کا تائیوان کا دورہ اشتعال انگیزی تصور ہو گا اور امریکی عہدیدار بھی اس انتباہ کو سنجیدیگی سے لے رہے ہیں۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان یوکرین پر روس کے حملے کے پس منظر میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ روسی حملے کی چین نے ابھی تک کوئی مذمت نہیں کی ہے۔ اس سے قبل چین اور امریکہ کے درمیان جو دیگر امور گزشتہ دنوں سے مسلسل کشیدگی کا سبب رہے ہیں ان میں چین کی کووڈ پالیسی اور چین کے اندر ایغور مسلماوں کے ساتھ بیجنگ کا سلوک بھی رہا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ کہ صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے لیے ضروری تھا کہ وہ باقاعدگی سے رابطے میں رہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے ایک گفتگو میں کہا: ’’ صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ صدر شی کے ساتھ گفتگو کے دروازے کھلے رہیں۔ ان کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسے مسائل ہیں جہاں ہم چین کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں اور یقیناً کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جہاں اختلافات اور کشیدگی ہے‘‘ دریں اثناء صدر بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ اس سے پہلے روس کے یوکرین پر حملے کے فوراً بعد گفتگو کی تھی۔ بائیڈن کے 2021 میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ پانچویں مرتبہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے رہنماؤں کے مابین فون پر گفتگو ہوئی ہے۔ امریکہ کی جان جان کربی کے بقول “دونوں ممالک کے مابین تاریخی طور پر سخت تناؤ میں اس سے کمی واقع نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق دنوں ممالک کا مؤقف جوں کا توں ہے۔”
جبکہ دوسری طرف چینی سرکاری میڈیاکا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ شی جن پنگ نے بائیڈن کو بتایا کہ امریکہ کو اپنے ’’ایک چین‘‘کے اصول پر عمل کرنا چاہیے اور یہ کہ امریکہ کے اقدامات اس کے بیانات سے مطابقت رکھنے چاہئیں۔چینی میڈیا کے مطابق شی جن پنگ نے بائیڈن کو کہا کہ ’’جو آگ سے کھیلتے ہیں وہ بالآخر جل جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کال کے دوران کہا کہ امریکہ کو معاملات کو واضح طور پر دیکھنا چاہیے۔
دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس کے ارکان کے دوروں کے بارے میں فیصلے لینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ لیکن حکام کے مطابق پلوسی کے تائیوان کے دورے سے تناؤ کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ ابھی تک پلوسی کے دورے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا تاہم اس سلسلے میں آخری فیصلہ پلوسی ہی کریں گی۔
اس ممکنہ دورے کی خبر پر گزشتہ ہفتے تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ڑاؤ لیجان نے خبردار کیا تھا کہ چین اپنی علاقائی سلامتی کے دفاع کے لیے سخت اقدامات اٹھائے گا۔ چین کی جانب سے دی گئی اس تنبیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے حکام نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘کو بتایا تھا کہ اگر پلوسی نے تائیوان کے دورے پر جانے کا فیصلہ برقرار رکھا تو ایسی صورت میں امریکی فوج انڈو پیسیفک خطے میں اپنی نقل حرکت اور فوجی سازوسامان کو بڑھا دے گی۔ اس سلسلے میں پلوسی کے طیارے کے گرد اور تائیوان میں بھی سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے فائٹر جیٹ، بحری جہازوں اور سرویلنس کے دائرے قائم کیے جائیں گے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن اس بارے میں غوروخوض کر رہے ہیں کہ بیجنگ پر سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں جو محصولات میں اضافہ ہوا تھا جسے بائیڈن انتظامیہ نے بھی برقرار رکھا ہے، اس پس منظر میں آیا چین سے درآمد ہونے والی کچھ چیزوں میں نرمی دی جا سکتی ہے تاکہ ملک کے اندر بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات پر قابو پایا جا سکے۔
چین – امریکہ پھر سے آمنے سامنے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS