ملک کے حالات ٹھیک نہیںہیں

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
’’ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ‘‘ یہ کہنا ہے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کا۔ انھوں نے گزشتہ روز نئی دہلی میں آل انڈیا صوفی سجادہ نشیں کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے بین المذاہب کانفرنس سے خطاب کے دوران یہ بات کہی ہے ۔ اس موقع پر انھوں نے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر سماج میں نفرت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں خاموش رہنا مناسب نہیں ہے بلکہ ہمیں متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھانے نیز غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے ، اپنی یکجہتی کا تحفظ کرنا ہے ۔یہ بہت ہی خطرناک رجحان ہے جس کا اثر ملک اور بیرون ملک پڑتا ہے۔ اسی روز ضلع لیگل سروسز اتھارٹی کے ایک بہت ہی خاص اجلاس میں ملک کے حالات پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن نے اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسائل کی پردہ پوشی کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اگر درپیش سنگین مسائل پر توجہ نہیں دی گئی تو نظام مفلوج ہو جانے اندیشہ ہے ۔ جسٹس رمن نے ملک میں طویل عرصہ سے زیر سماعت قیدیوں کی حالت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے چند روز قبل ہی اتر پردیش حکومت اور ا لہ آباد ہائی کورٹ پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان 853 قیدیوں کی تفصیلات مانگی ہے جو ریاست کی مختلف جیلوں میں دس برسوں سے قید ہیں ۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما سبرامنیم سوامی نے اپنے ایک ٹویٹ میں یہ لکھ کر حکومت کی بے چینی بڑھا دی ہے کہ جس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعدادو شمار پر وزیر خزانہ نے ایک ماہ قبل خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آنے والے مالی سال میں شرح نمو آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی ، اسی آئی ایم ایف نے اب اس شرح نمو کو گھٹا کر سات اعشاریہ چار اور جلد ہی چھ فیصد کر دیا ہے ۔ اب ایسے حالات میں یہ شائننگ انڈیا ہوگا یا کراہتا ہندوستان ؟اپنے ایک دوسرے ٹویٹ میں سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کے ذریعہ ملک میں بھوک سے مرنے والوں پر تاسف کے اظہار کے ذکر کے بعد حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’’ اگر اتنی ترقی ہوئی ہے تو لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں ؟ ادھر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنائے جانے کا الزام براہ راست وزیر اعظم مودی پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پی ایم مودی ساورکر اور گروالکر کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔یہ چند بیانات ہیں جو گزشتہ چنددنوں میں سامنے آئے ہیں ۔ جو ملک کے بڑھتے تشویشناک منظر نامہ کو پیش کر رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے حالات چند دنوں میں پیدا ہوئے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سات آٹھ برسوں سے مسلسل ملک کے سنجیدہ رہنما، دانشور ، حقوق انسانی کے لئے جد و جہد کرنے والے ، سابق افسران ، سابق افواج ، فنکار وغیرہ مسلسل متنبہ کر رہے ہیں ، لیکن حکومت سچ اور سوال کو نہ صرف نظر انداز کرتی رہی بلکہ سچ بیان کرنے اور سوال کرنے والوں سے قید خانے کو بھرتی رہی ۔ ہم ذرا گزرے ہوئے چند دنوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے یہ منظر نامہ آتا ہے ۔
چند ماہ قبل ہی رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں میںجس طرح مذہب کے نام پر ملک کے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نازیبا جملوں کا استعمال کیا گیا ، مساجد ، درگاہ کی بے حرمتی کی گئی انھیں نذر آتش کیا گیا،مسلمانوں کو زدو کوب کیا گیا ، ناکردہ گناہوں پر مظلوموں کو ہی رمضان جیسے مقدس ماہ میں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔یہ سب پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں ہوا ۔ دھرم سنسد اور دوسری کئی فرقہ پرست تنظیموں نے ایسا ماحول بنانے میں اہم رول ادا کیا ، جس کے بارے میں دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے دھرم سنسد میں متنازعہ اور نفرت انگیز تقاریر نہ ہونے کا حلف نامہ داخل کیا ہے۔اس سفید جھوٹ پر سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کرتے ہوئے دہلی پولیس کو دوبارہ حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ دھرم سنسد کے اسی پروگرام میں سدرشن چینل کے اینکر چوہانکے نے ہندو راشٹر کے قیام کے لئے پروگرام میں موجود لوگوں کومسلمانوں کے قتل عام کا حلف دلایا تھا۔رام نومی اور ہنومان جینتی کی آڑ میں پورے ملک میں نفرت اور خوف و دہشت کا ماحول بنانے کے بعد جہانگیر پوری میں جس طرح غیر آئینی اور غیر انسانی واقعات دانستہ طور پر برسر اقتدار حکومت کی سرپرستی میںرونما ہوئے ، انتظامیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں ، دکانوں اور مسجد پر جس طرح بلڈوزر چلا کر آئین اور قوانین کو روندا گیا ، ان سانحات اور واقعات نے پوری دنیا کے سامنے صدیوں سے اپنی گنگا جمنی تہذیب اور جمہوری ملک کی پہچان رکھنے والے ملک کی شبیہ کو کریہہ کیا ہے ۔
منصوبہ بند اور منظم فرقہ واریت اور منافرت سے بھرے سانحات اور واقعات کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ جیسے جیسے عوام کی بنیادی ضروریات اور سہولیات کے محاذ پر حکومت کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عوام کی خفگی ، احتجاج اور مظاہرے آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں اور ان کا صبر و تحمل ختم ہوتا جا رہا ہے ، ویسے ویسے پچاس برسوں تک اقتدار میں رہنے اور اپنے مفادات پورا کرنے کا اپنا خواب انھیں چکنا چور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ حکومت کے کرشمائی وزیر اعظم کے سارے دل لبھاونے دعوے ،نعرے اور مستقبل کے سنہری خواب کی حقیقت بھی سامنے آ گئی۔ کسی عفریت کی طرح منھ کھولے کروڑوں نوجوانوں کی بے روزگاری ، غربت و افلاس کے اندھیرے میں ڈوبتی زندگی اور آسمان چھوتی مہنگائی نے انسان کی زندگی کو مایوسیوں اور گھٹن میں بدل دیا ہے۔ان بڑھتے بنیادی مسائل اور بے قابو ہوتے حالات میں موجودہ حکومت کے پاس ملک کے اندر منافرت، تشدد، ظلم و ستم ، مذہبی جنون ، عداوت، عدم رواداری، عدم تحمل کی فضا تیار کراصل مسائل سے لوگوں کے ذہن کو بھٹکانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔حالانکہ حکومت ،آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیموں کی ایسی غیر انسانی اور غیر آئینی کوششوں کو عام طور پر عوامی حمایت حاصل نہیں ہو پا رہی ہے۔گویا مذہب کی افیم چٹانے کی کوشش بھی ناکام ثابت ہو رہی ہے ۔ ملک کے عوام کو پانچ ٹریلین کا خواب دکھانے والے کی حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت 139 لاکھ کروڑ تک کے قرض میں ڈوب گیا ہے۔ ورلڈ بینک نے ہندوستان کو ترقی پزیر ملک کا ٹیگ ہٹا کر پاکستان ، گھانا اور زمبیا جیسے ممالک کی صف میں کھڑا کردیا ہے ۔ جو اس ملک کے لئے بہت زیادہ شرمناک اور مایوس کن ہے کہ اب بھارت لوور مڈل انکم کیٹگری میں شمار ہوگا ۔ غور کیجئے کہ جس ملک کے ’وشو گرو‘ بننے کا خواب دیکھاجا رہا تھا ، اس کی معیشت اور ترقی کے گرتے گرتے گھانا اور زمبیا جیسے بہت چھوٹے غیر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شمار کیا جانے لگا ہے ۔ بے روزگاری ، بھکمری اور بدعنوانیوں کے اعدادو شمار میں عالمی سطح پر یہ ملک پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے ۔ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیت مخالف شبیہ سے ملک کی معیشت کو بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی (بظاہر) اس قدر ہوڑ لگی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک سری لنکا ، نیپال وغیرہ کا حال دیکھ کر بھی سبق نہیں لے رہا ہے ۔
منافرت کے بڑھتے شعلوں میں گھرے امن و امان اور یکجہتی کے لئے پہچان رکھنے والے ملک کی ایسے سنگین حالات کو دیکھتے ہوئے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی تشویش کا برملا اظہار کیا جارہا ہے ۔کانگریس صدر سونیا گاندھی سمیت ملک کی تیرہ حزب مخالف سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے کچھ دن قبل اپنے ایک مشترکہ بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ملک کے اندر فرقہ پرستی ، ظلم و زیادتی ، تشدد ، بربریت ، عدم رواداری ، مذہبی اختلافات کے بڑھتے سنگین حالات پر خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے خورد و نوش ، لباس ، عقائد ، تہوار ، اور زبان کی بنیاد پر پولرائزیشن کی کوششوں پر غم وغصہ کا اظہار کیا ہے ۔ اس مشترکہ بیان میں ملک میں بڑھتی منافرت پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم سے ایسا ماحول بنا کر ملک کا نقصان کرنے والوں کے خلاف بولنے اور کارروائی کرنے کی گزارش کی گئی تھی ۔ اپوزیشن کے اس سوال پر وزیر اعظم کی اب تک خاموشی تو نہیں ٹوٹی لیکن اس نے انھیں پریشان تو ضرور کر دیا ہے کہ اب تک اتنے پُر زور طریقے سے پہلی بار ان سے سوال کیا گیا ہے ورنہ پہلے تو ایسے فرقہ وارانہ تشدد پر حزب مخالف ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنا رہتا تھا ۔ معروف ماہر معاشیات اور کانگریس رہنما پی چدمبرم نے ایسے حالات پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس کارکردگی کے نام پرکچھ نہیں ہے اس لئے مذہبی جنون کو ہوا دے کر اپنے مفادات پورا کرنا چاہتی ہے ۔ چند ماہ قبل امریکہ کے دورہ پر گئے ملک کے وزیر خارجہ جئے شنکر اور وزیر دفاع کو اس وقت کافی خفّت اٹھانی پڑی جب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھارت میں مسلسل انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ۔اس سے قبل امریکی قانون ساز الہان عمر جو پوری دنیا میں حقوق انسانی کے مسائل پر آواز اٹھاتی رہتی ہیں انھوں نے بھی بھارت میںمسلمانوں کے حوالے سے مودی حکومت کی سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ مودی کی حکومت میں وہاں کے مسلمانوںکے ساتھ حقوق انسانی کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ ان تمام اعتراض ، احتجاج ، تنبیہ ، تنقید کے باوجود حکومت اپپنے ’اندھ بھکتوں ‘ کے کاندھوں کے سہارے اندھے کنویں کی جانب بڑھ رہی ہے ۔پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں بے روزگاری ، مہنگائی ، ڈالر کے مقابلے روپئے کی گرتی قیمت وغیرہ جیسے اہم مدعوں سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اپوزیشن کے ممبران پارلیمنٹ کو سوال پوچھنے پرمعطل کیا جا رہا ہے ،یہ کسی بھی جمہوری ملک کے مفادمیں نہیں ہے ۔
[email protected]
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS