پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
حال ہی میں ایک سمپوزیم کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر کویتا اے سی سے ہوئی۔ اس پروگرام میں جرنلسٹ اور ٹیچر بھی شامل تھے، ہندوستان اور چین پڑوس میں دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ مگر آج دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سب سے کم تر درجہ پر ہیں۔ پھر بھی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت ہے۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں میں 121 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔ سال رواں میں تجارت میں اضافہ کا امکان ہے یہ تجارت بڑھ کر 140 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس تجارت میں بڑا حصہ چین کا ہے۔ اس لیے چین ہندوستان کے ساتھ جنگ سے گریز کرتا ہے۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنگ سے نقصان ہے کیونکہ اس سے اس کی صنعتی کارکردگی اور پیداوار پر اثر پڑے گا۔ ہندوستان میں بھی اسی قسم کی صورت حال ہوگی۔ اسی وجہ سے دونوں ملک جنگ نہیں چاہتے ہیں اور مذاکرات کو فوقیت دیتے ہیں۔ گلوان کی وادی میں تصادم کے بعد دونوں میں مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں اور قیام امن کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وزیر داخلہ ڈاکٹر جے شنکر چین میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ترشی آگئی ہے۔ کویتا اے شرما خود ایک ماہر تعلیم ہیں اور وہ انڈیا انٹر نیشنل سینٹر کے ڈائریکٹر تھیں اور انہوں نے برٹش کولمبیا سے ایل ایل ایم کیا ہے۔ انہوں نے تحقیق پر مبنی ایک کتاب India and China: Expcetation, Activity and Excelence میں چین کی ترقی کا تجزیہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ چین نے نشہ آور ادویات کے خلاف جنگ کی اور پھر تعلیم پر توجہ مرکوز کی چین کو اقتصادی طور کامیاب بنایا اور آج چین اپنے بل بوتے پر بڑی اقتصادی قوت بن گیا ہے۔ ڈاکٹر کویتا نے باب دس میں کہا ہے کہ چین نے جدید طرز زندگی اختیار کی اسی طرح انڈسٹری اور موجودہ ترقی کی راہ کو یقینی بنایا۔ چین کی سماجی زندگی پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔ ہندوستان نے بھی تعلیم کے میدان میں اور تکنیکی خودکفالت کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے معیشت بہتر ہوئی ہے۔ اس موقع پر سابق خارجہ سکریٹری شری شیام شری نے ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور چین قدیم زمانے سے ہی ثقافتی اور اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ ہندوستان سے بودھ مذہب کی تبلیغ چین کی سرزمین پر ہوئی بودھ مذہب کو اختیار کرنے کے لئے ہندوستان کی یونیورسٹیوں یعنی نالندہ یونیورسٹی اور تشکلہ یونیورسٹی کو منتخب کیا تھا کیونکہ اس وقت دنیا میں اپنے طرح کے یہی دو ادارے تعلیم کے اہم مراکز تھے۔
1160 سے 771 بی سی (قبل از مسیح) میں ان قومی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میںآیا۔ 1840 سے 1911 کے درمیان روایتی تعلیم پالیسی میں تبدیلی کی گئی۔ ہندوستان میں ویدک دور سے ہی تعلیم پر خاص زور دیا گیا۔ ادھر دوسری جانب ہندوستان میں بھی روایتی تعلیمی پالیسی کو جدید شکل دی گئی۔ چین کی جدید اعلیٰ تعلیمی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی نیشنل پالیسی فار ایجوکشن، 1968 میں کوٹھاری کمیشن، رام مورتی کمیٹی ، نیشنل نالج کمیشن، نرائن مورتی کمیٹی کے ذریعہ پرائیویٹ سیکولر تعلیمی میدان میں شراکت اور تعاون کا موقع دیا گیا۔ چین میں جو ایک دوسرا اہم فیصلہ تعلیم کا internalization تھا، غیرملکی اسکالروں کو لانے سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہوا۔ اسی بابت ہندوستان میں اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی ایک اہم قدم تھا، تعلیم کے میدان میں ہندوستان کی سرکار اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) کا اہم رول ہے۔ 1988-89 کی ورلڈ بینک کی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے تعلیم اور ثقافت کے امتزاج سے ملک کو ترقی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔
سابق خارجہ سکریٹری اور انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے صدر شیام سرن آئی ایس ایف کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو بین الاقوامی سطح پر حاصل ہونے والے تعاون اور ڈیجٹلائزیشن (Degitalization) تعلیم کے فروغ میں ضروری ہے۔ مگر چین نے دوستانہ تعلقات کو نظر انداز کرکے 1962 میں ہندوستان پر حملہ کر دیا اور ہندوستان کی سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ 21 نومبر 1962 کو جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا، اسی وقت سے دونوں ملکوں کے تعلقات آج تک معمول پر نہیں آسکے ہیں۔ جواہر لعل نہرو کی موت کے بعد لال بہادر شاستری نے چین سے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا۔ مگر ہندوستان کو کامیابی نہیں ملی، کیونکہ چین نے 1965 کی ہندوستان پاکستان جنگ میں غیرمنصفانہ طریقہ سے پاکستان کی یک طرفہ حمایت کی تھی۔ 23 ستمبر 1965 کو ہندوستان پاکستان جنگ میں بندی کا سمجھوتہ ہو گیا اور اسی طرح چین کے منصوبوں اور ارادوں پر پانی پھر گیا۔
اسی صورتحال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہندوستان اور چین کے عہدوسطیٰ سے چلی آرہی دوستی موجودہ جدید دور میں کئی مرحلوں اور سطحوں سے گزر رہی ہے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ آج تک برقرار ہے۔ گرچہ ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے، مگر ابھی دونوں ملکوں کے درمیان کئی تصفیہ طلب امور ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ سرحدی تنازع اور تبت ہے۔ چین کی سرکار نے ہمیشہ سے تبت کے مسئلہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ اسی وقت چین اور ہندوستان اپنے اپنے ترقیاتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ 21ویں صدی کے چین اور ہندوستان کے درمیان مسابقت تو ہے، مگر دونوں ملکوں کو سفارتی مذاکرات کے ذریعہ اختلافات کو دور کرنے کی اور کوششیں کی جانی چاہئیں۔ کشیدگی کے خاتمہ سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔
(مضمون نگار صحافی، دانشور اور دوردرشن
سے وابستہ رہی ہیں)