سیکولر ،کمیونل نہیں، اپنے مفاد کا سودا کریں مسلمان: محمد احمد

0

محمد احمد

آزادی کے77 سال بعد بھی ملک کے مسلمانوں کو سیکولر اور کمیونل کے فراق میں ہی پھنسایا جا رہا ہے۔آزادی کیساتھ ہی کانگریس کی سرکار بنی اورجس طرح ایک سیکولر آئین میں آرٹیکل341میں مذہبی قید لگاکر اس کی روح کو دفن کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی اور نعرہ دیا گیا سیکولرزم کے تحفظ کا وہ کسی بھی فریب سے کم نہیں تھا اور نہ ہے۔ اس فریب کا کچھ قوموں کے ساتھ ازالہ کر لیا گیا، جبکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے اور انہیں سے کہا جارہا ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کریں، جبکہ سب سے زیادہ نقصان بھی انہیں کو مذکورہ شق سے پہنچایا گیا۔آزادی کے بعد بیشتر جاتیوں نے اپنی اپنی پارٹی بنالی۔ یوپی کے تناظر میں دیکھیں تو 7 فیصد یادو سماج والا چاہتا ہے کہ مسلمانوں اس کو ووٹ کریں اور22 فیصد دلت والی مایاوتی بھی یہی چاہتی ہیں۔ کانگریس جس کا کوئی ووٹ فیصد آج کی تاریخ میں نہیں ہے وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ مسلمان اس کوووٹ کریں۔ یوپی میں ماضی میں مسلم لیڈر شپ کی قیادت میں پارٹیاں بھی بنیں، لیکن توقعات پر کھری نہ اتر سکیں ، ماضی بعید میں ملائم سنگھ کے ذریعہ رسوا کئے جانے کے بعد ڈاکٹر مسعود نے پارٹی بنائی اور چنائو لڑے ، لیکن ان کو وہ رسپانس نہیں ملا جس کی ان کو امید تھی، تاہم 2009 کے اوائل میں ڈاکٹر ایوب نے پیس پارٹی بنائی اور ان کو وہ رسپانس ملا جس کی امید کم تھی ، لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ اس حمایت کو سنبھال نہیں سکے، جو انہیں صر ف مسلمانوںسے نہیں بلکہ دوسری جاتیوں سے بھی ملی تھی۔ اس کے اسباب کیا تھے وہ تو خود ڈاکٹر صاحب بتائیں گے ، لیکن میں اپنے تجرے اور سمجھ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب سیاست میں امت کی قیادت یا فلاح کیلئے نہیں بلکہ شاید کسی اور دوسرے کام کیلئے آئے تھے،یا پھر انہیں وہ سیاسی شعور اور ویژن نہیں حاصل تھا جس کی سیاست دانوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ یوپی سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں اسد الدین اویسی سرگرم عمل ہیں ، لیکن وہ جس طرح کی سیاست کرتے ہیں اس سے اس جماعت کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے جس پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا الزام بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقہ سے ہے۔ اس کے برعکس آسام میں بدر الدین اجمل کی پارٹی کو دیکھیں تو ان پر الزام ہے کہ وہ بالواسطہ طریقہ سے بی جے پی کیلئے کام کرتی ہے۔ اور یہ الزام خود کانگریس کے راہل گاندھی کی طرف سے لگایا تھا جن کیساتھ مل کر اے آئی یو ڈی ایف نے چنائو لڑا تھا۔ اس سے قبل2006 کے قریب یو ڈی ایف کی تشکیل دی گئی تھی جس کا ویژن شاید سیاسی سودے بازی کے سوا کچھ نہیں تھا، ورنہ اس پارٹی سے اس بات کی امید کی جاسکتی تھی کہ یہ ملک کے ایک بڑے طبقہ کی آواز بن سکتی تھی۔
افسوس یہ ہے کہ کچھ لوگ سیاست میں مسلم لیڈر بن کر پیسہ کمانے آئے تو کچھ سیاست میں عہدہ اور شہرت کیلئے ، خدمت کیلئے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی ، سی کے جعفر شریف جیسے کم لوگ ہی آئے۔ الیاس اعظمی میں سیاست کی تمام خوبیاں موجود تھیں، لیکن مصلحت اور حکمت کا فقدان ان کو وہ مقام نہ دلاپایا جس کے وہ مستحق تھے، ورنہ ان سے امت کی عظیم خدمت ہوتی جس کو زمانہ صدیوں یاد رکھتا۔ یوپی کی سطح پر دیکھیں تو ریتا بہوگنا جوشی نے کچھ لوگوں کو پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، جو اپنی قوم کی آواز بن سکتے تھے اور مسلمانوں میں ایک بڑا نام محمد طارق صدیقی کا تھا جن کو پوری یو پی سی سی کی چابی دے دی گئی تھی ، لیکن وہ بھی کچھ لوگوں کی سیاست کا ایسے شکار ہوئے کہ پھر کھویا مقام آج تک نہ حاصل کرسکے، ورنہ ان کے اندر جولیاقت اور صلاحیت موجود ہے وہ یوپی کی سطح پر کم لوگوں کے اندر دیکھی گئی۔ امپار بنا کر کچھ حد تک اس خلاء کو ڈاکٹر ایم جے خان نے بھرنے کی کوشش کی ، لیکن وہ بھی اپنوں کی سیاست کا شکار ہوگئے اور وہ سر سید کے اسکول سے ہونے کے باجود سرسید کے مزاج سے ناواقف ٹھہرے۔ورنہ امپا ر کئی وٹامن ڈی 3اور ڈی 12 سے بھرپور کئی امراض کی دوا بن سکتا تھا ، اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے ، اگر ایم جے خان دوبارہ سے امپار کو ایکٹیو کرکے انبیاء کے طریقہ پر چل کر کام کریں تو کام بڑ ا ہوسکتاہے، مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگوں کا مزاج شاہانہ ہوتا ہے، وہ کام تو دنیا والوں کیلئے کرتے ہیں لیکن جزاء بھی انہیں سے چاہتے ہیں ،جبکہ کام کرنے والے مخلوق سے جزاء اور شکر دونوں کی توقع نہ رکھیں، اگر مل جائے تو فبہا و نعمت ، اس لئے امپار یا اس جیسی لیڈر شپ کی غیر دور اندیشی سے جو نقصان سماج کو ہوا اب اس کی بھرپائی کون کرے گا ؟مستقبل قریب میں اس کے امکانات معدوم ضرور نظر آتے ہیں ، لیکن مولیٰ کب موسیٰ پیدا کردے یہ اس کیلئے نامشکل ہے نا محال۔
اس لئے سیکولر اور کمیونل کی سیاست سے اوپر اٹھ کر فائدے اور نقصان کی سیاست پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اکھلیش یادو کا ووٹر جب انہیں ووٹ نہیں کرتا ہے تو ہم ان کی ٹھیکہ داری کیوں لیں؟ یہ بات مسلمانوں کو سوچنی ہوگی۔ یوپی کے تناظر میں بات کریں تو 2017 کے اسمبلی الیکشن میں ایک ٹیکسی ڈرائیور جو اکھلیش یادو کی جاتی کا تھا جب اس سے بات ہوئی تو اس نے صاف کہاکہ کانگریس سے اکھلیش نے الائنس ہم سے پوچھ کر کیا ہے ، ہم تو بی جے پی کو ووٹ کریں گے، یہ سکہ کا ایک رخ ہے ،دوسرا رخ یہ ہے کہ اکھلیش پر جاتی واد کا ایسا الزام ہے کہ یادو کے علاوہ دوسری اوبی سی جاتیاں چاہتی ہیں کہ وہ بی جے پی سے چھٹکارا حاصل کریں، لیکن 2017 کے بعد سے ان کو مسلسل بی جے پی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، پہلے کانگریس اور ایس پی الائنس ، اس کے بعد بی ایس پی اور ایس پی الائنس ،یہ دونوں الائنس غیر فطر ی ہیں اور یوپی میں کم ازکم جس بھی الائنس کا اکھلیش حصہ ہوں گے اس الائنس کو کم و بیش 40فیصد ووٹ ویسے ہی نہیں ملے گا اور یہی ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں چلا جاتا ہے تو پھر اسے 75پارلیمانی سیٹیں جیتنے سے کون روک سکتا ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے الیاس اعظمی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ اکھلیش کو چنائو میڈیا اور بی جے پی مل کر لڑا رہے ہیں تاکہ ماحول بنا رہے اور کسی بھی طرح سے مسلمان اس کے پھیرے سے نہ نکلنے پائے ،ورنہ یہ ووٹ اگر بی ایس پی یا راہل کی کانگریس کو مل گیا تو بی جے پی کا بڑا نقصان ہوگا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یادو ووٹ کو اکھلیش یادو ٹرانسفر کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور حال میں ہم نے ایم پی میں بھی دیکھا جہاں خود اکھلیش نے کانگریس کیخلاف کام کیا اور ماضی میں ہم نے یوپی میں بھی دیکھا کہ یادو نے اکھلیش الائنس کو بہت ہی کم ووٹ کیا اور یہ ووٹ اتنا ہے بھی نہیں کہ کسی پارٹی کو جتانے یا ہرانے کی پوزیشن میں ہو۔ خیر ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں۔
اس لئے اب چونکہ ملک کا مزاج پوری طرح چناوی ہوچکا ہے۔ ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا، اس کا فیصلہ ملک کے لوگوں کو کرنا ہے۔140 کروڑ لوگ بالواسطہ اور بلاواسطہ وزیراعظم کا انتخاب کریں گے۔ جو 272 کا جادوئی ہندسہ پار کرے گا، سرکار اس کی بنے گی۔ ان سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عزت اور حکومت کا کاپی رائٹ صرف اللہ کے پاس ہے ، آپ کو اعمال ایسے کرنے ہیں کہ عزت والے اعمال ہوں جبکہ حکومت کئی بار اچھے لوگوں کو راہ راست پر لانے یا بھٹکے ہوئے لوگوں کو سدھارنے کیلئے ایسے لوگوں کو دے دی جاتی ہے جو حکومت کے اہل نہیں ہوتے ورنہ عزت اور سربلندی انہیں کا مقدر ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ کرسی کس قدر ظالم ہے کہ اگر انسان اس کو عزت کیساتھ نہیں چھوڑتا ہے تو وہ اس کو ذلیل اور رسوا کردیتی ہے۔4000 پڑھے لکھے سنجیدہ مسلمان اگر انڈیا اسلامک کلچر ل سینٹر نہیں چلاسکتے تو140 کروڑ کا ملک اللہ ان کو چلانے کیلئے کیوں دے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب تو دینا ہی ہوگا ، کیوںکہ کرسی سے چپکے رہنے کی جو ہوس ہے وہ اچھے اچھے انسانوں کو تباہ کردیتی ہے۔ بہر حال اس چنائو میں وزیراعظم مودی نے جہاں400 کے پار کا نعرہ دیا ہے جو بہرحال فی الوقت مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے، بات اس کی مشیئت پر منحصر ہے۔ اس لئے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ سیکولر کمیونل چھوڑ کر ان جماعتوں کیساتھ ہو لیں جو آپ کیلئے بات کرتی ہیں اور آپ کیلئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ، مثال کے طور پر مہاراشٹر میں اجیت پوار کی پارٹی ہے۔مجھے یاد ہے الیاس اعظمی کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو مہاراشٹر کی سطح پر دو لوگوں سے بات کرنی چاہئے ایک گوپی ناتھ منڈے اور دوسرے ادھو ٹھاکرے، لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کو بہت دیر میں عقل آئی۔ اگر اجیت پوار کے ساتھ مسلمان بات کریں تو وہ ان کیلئے بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مجھے این سی پی جنرل سکریٹری سید جلال الدین نے ایک موقع پر بتایا کہ ایک فساد میں ایک مسلم لڑکے کی جان چلی گئی تو معاوضہ پانچ لاکھ طے کیا گیا ،جب فائل بہ حیثیت وزیرمالیات اجیت پوار کے پاس آئی تو انہوںنے افسران سے پوچھا کہ ایک دوسرے کیس میں معاوضہ تو 25 لاکھ کا طے کیاگیاتھا، کیا مذہب بدلتے ہی معاوضہ بدل جاتا ہے؟ انہوںنے افسران کو پھٹکار لگائی اور فائل دوبارہ وزارت کو بھیجنے کو کہااور معاوضہ کی رقم 25 لاکھ طے کی۔
مسلمانوں سے جڑے بہت سے اداروں کا بجٹ اجیت پوار نے بڑھایا ہے ، خود مسلم ریزرویشن کا ایشو بھی بی جے پی کیساتھ رہ کر اٹھایا ہے ، اگر مسلمان چاہیں تو ممبئی میں اجیت پوار کیساتھ جاکر اپنا بھی اور اپنی قوم کا بھی بھلا کرسکتے۔ یہی فارمولہ تامل ناڈو میں اسٹالن کیساتھ، بہار میں نتیش کمار کیساتھ، کیرلہ میں مسلم لیگ اور لیفٹ کیساتھ ، بنگال میں ممتا بنرجی کیساتھ، دہلی ،پنجاب اور ہریانہ میں کانگریس کیساتھ،یہاں یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ پارٹی سے زیادہ مضر بی جے پی بھی نہیںہے۔ تامل ناڈو میں پریانک کھڑگے ، ڈی کے شیو کمار جیسے لیڈروں کو مضبوط کرکے کیا جاسکتا ہے۔آسام میں اجمل کے ساتھ ٹیکنیکل ووٹنگ کے ذریعہ، مطلب حکمت عملی قومی سطح پر نہیں بلکہ ریاستی ، ضلعی ، اور بلاک سطح پر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل نہ کوئی سیکولر نہ کوئی کمیونل ہے۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ اگر 24 گھنٹہ کسی بھی آدمی کو اگر آپ گالی دیں گے تو اس سے خیر کی امید کبھی نہ رکھیں ، انسان بہر حال انسان ہے۔ qqq

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS