بچہ مزدوری کا ناسور

0

روی شنکر

ہندوستان دہائیوں سے بچہ مزدوری کا ناسور جھیل رہا ہے۔ ملک کا بچپن اپنے سنہرے خوابوں کی جگہ کبھی جھاڑو پونچھے سے کسی کے گھر کو چمکا رہا ہوتا تو کبھی اپنے نازک کاندھوں پر بوجھ ڈھو کر اپنے کنبہ کا پیٹ پال رہا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں کہنے کو بچوں کو بھگوان کا روپ سمجھا جاتا ہے، لیکن ان سے مزدوری کرانے میں کوئی گریز نہیں ہوتا۔ حکومتیں بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کرتی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ اتنی بیداری کے بعد بھی ہندوستان میں بچہ مزدوری کے خاتمہ کے آثار دور دور تک نہیں نظر آتے۔
حالاں کہ بچہ مزدوری صرف ہندوستان تک محدود نہیں، یہ ایک عالمی سانحہ ہے۔ آج پوری دنیا میں تقریباً 21.8کروڑ بچے کام کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو مناسب تعلیم اور صحیح تغذیہ نہیں مل پارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں 21کروڑ 80لاکھ بچہ مزدور ہیں، جب کہ صرف ہندوستان میں ان کی تعداد ایک کروڑ26لاکھ 66ہزار سے اوپر ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ بچہ مزدوری کی سب سے بدترین شکل ہے، جیسے نقصان دہ ماحول، غلامی یا مجبور مزدور کی دیگر شکلوں، منشیات کی اسمگلنگ اور جسم فروشی سمیت غیرقانونی سرگرمیوں، مسلح جدوجہد تک میں شامل ہوتے ہیں۔

بچہ مزدوری ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی ملک کے بچے اس ملک کا آنے والا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر انہی بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا تو وہ ملک کے مستقبل کی تعمیر کیسے کرسکیں گے۔ اس لیے معاشرہ کو بیدار ہوکر اسے روکنے کے لیے مزید سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف ان غریب معصوم بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے، بلکہ ان کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس کے لیے حکومتوں کو کچھ عملی اقدام کرنے ہوں گے۔ عام عوام کی بھی اس میں شراکت داری ضروری ہے۔

پڑھائی اور کھیل کود کی عمر میں وہ کام کرتے ہوئے اپنا بچپن گنوا دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک میں بچہ مزدوری کو روکنے کے لیے کئی ضوابط اور قانون ہیں، لیکن ان پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں بچہ مزدوری اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بچہ مزدوری کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لوگوں میں بیداری بڑھائی جائے اور قانون پر صحیح طریقہ سے عمل ہو تو ملک سے بچہ مزدوری کو پوری طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ مگر ملک میں بچہ مزدوروں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور ان سے خطرناک کام بھی کرائے جاتے ہیں۔ ویسے تو بچہ مزدوری کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن اہم سبب دیکھا جائے تو غریبی ہی ہے۔ غریب لوگ اپنے کنبہ کی کفالت کرنے کے لیے اپنے بچوں کو مزدوری پر بھیجتے ہیں، یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی حالت میں نہیں ہوتے، اس لیے وہ بچوں کو کام پر بھیجتے ہیں۔ کئی بچوں کے والدین نہیں ہونے کی وجہ سے وہ بچپن میں ہی مزدوری کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ کئی بچہ مزدوروں کے خاندانوں کی حالت پڑھائی کے لائق ہونے کے بعد بھی مزدوری کے لالچ میں وہ کام کرجاتے ہیں۔ موجودہ وقت میں غریب بچے سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جو غریب بچیاں ہوتی ہیں، ان کو پڑھنے بھیجنے کے بجائے گھر میں ہی ان سے بچہ مزدوری یعنی گھریلو کام کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتی آبادی، سستی مزدوری، تعلیم کی کمی اور موجودہ قانون پر صحیح طریقہ سے عمل نہ کرایا جانا بچہ مزدوری کے لیے ذمہ دار ہے۔ بچہ مزدوری انسانیت کے لیے لعنت ہے۔ ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
صحت مند بچے قوم کا فخرہیں۔ آج کے بچے کل کا مستقبل ہیں۔ یہ اقوال واضح کرتے ہیں کہ ملک کی ترقی کا سب سے اہم عنصر بچے ہی ہیں۔ مگر تب ہم ان ہی کل کے مستقبل کو چائے کی دکانوں، ڈھابوں اور ان شعبوں میں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، جہاں پر ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو ہم شرمسار ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی آئین کے مطابق کسی صنعت، کارخانے یا کسی کمپنی میں ذہنی یا جسمانی مزدوری کرنے والے پانچ سے 14برس کی عمر کے بچوں کو بچہ مزدور کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں 1979میں ہندوستان کے ذریعہ بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے طریقے کی تجویز کے لیے گروپاد سوامی کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ تب بچہ مزدوری سے وابستہ تمام مسائل پر ریسرچ کے بعد اس کمیٹی کے ذریعہ سفارش پیش کی گئی تھی جس میں غریبی کو مزدوری کے اہم سبب کے طور پر دیکھا گیا اور تجویز رکھی گئی کہ خطرناک شعبوں میں بچہ مزدوری پر پابندی لگائی جائے اور ان شعبوں کے کام کی سطح میں بہتری لائی جائے۔ کمیٹی کے ذریعہ بچہ مزدوری کرنے والے بچوں کے مسائل کے حل کے لیے کثیرجہتی پالیسی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ وہیں 1986میں Child Labor Prohibition and Regulation Actپاس ہوا، جس کے مطابق خطرناک صنعتوں میں بچوں کی تعیناتی غیرقانونی ہے۔ ہندوستانی آئین کے بنیادی حقوق میں استحصال اور ناانصافی کے خلاف آرٹیکل23اور 24کو رکھا گیا ہے۔ آرٹیکل23خطرناک صنعتوں میں بچوں کے روزگار پر پابندی لگاتا ہے اور آرٹیکل24کے مطابق 14سال سے کم عمر کا کوئی بھی بچہ کسی فیکٹری یا پھر کان (mine) میں کام کرنے کے لیے اور نہ ہی کسی دیگر خطرناک کام کے لیے مقرر کیا جائے گا۔ قانون کے مطابق 14برس سے کم عمر کے بچوں کی ملازمت کی ممانعت کی گئی ہے۔ جب کہ دفعہ45کے تحت ملک کی سبھی ریاستوں کو 14سال سے کم عمر کے بچوں کو مفت تعلیم دینا لازمی کیا گیا ہے۔ پھر بھی اتنے بڑے قوانین کے ہونے کے باوجود ہوٹلوں اور دکانوں میں بچوں سے دن رات کام کرایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری وسیع پیمانہ پر ہے۔ یہاں بچہ مزدوری کے لیے بچوں کی اسمگلنگ بھی کی جاتی ہے۔
ملک کی ہمہ جہت ترقی میں بچوں کا سب سے اہم تعاون ہوتا ہے۔ یہی وہ اہم ورثہ ہیں، جو ایک ملک کا مستقبل طے کرتے ہیں۔ اس لیے اولین طور پر کسی بھی ملک کی حکومت کا سب سے اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ انہیں جسمانی اور ذہنی سطح پر ترقی کرنے کے مناسب مواقع دستیاب کرائیں۔ معاشرہ کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائیں جو بچوں کی تعلیم، ترقی اور ڈیولپمنٹ کے امکانات سے پرہو۔ انہیں ان کی ترقی کے مرحلہ کے دوران ایسی جسمانی اور ذہنی پریشانیوں سے بچایا جانا چاہیے جو ان کی قدرتی نشوونما میں رکاوٹ پہنچانے اور مستقبل کو تاریک بنانے کا سبب بنتی ہو۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری کا مسئلہ بڑی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ 7دہائیوں میں متعدد اسکیموں، فلاحی پروگراموں، قانون سازی اور انتظامی کوششوں کے باوجود ملک کے بچوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دکھ اور تکلیف جھیل رہا ہے۔ ملک میں زیادہ تر کنبوں میں والدین کے ذریعہ نظرانداز کیے جانے، محافظوں کے ذریعہ مارپیٹ اور مالکوں کے ذریعہ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پھر بھی حیرانی ہے کہ اسے سنگین مسئلہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔
بچہ مزدوری ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی ملک کے بچے اس ملک کا آنے والا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر انہی بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا تو وہ ملک کے مستقبل کی تعمیر کیسے کرسکیں گے۔ اس لیے معاشرہ کو بیدار ہوکر اسے روکنے کے لیے مزید سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف ان غریب معصوم بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے، بلکہ ان کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس کے لیے حکومتوں کو کچھ عملی اقدام کرنے ہوں گے۔ عام عوام کی بھی اس میں شراکت داری ضروری ہے۔ ہر شخص جو معاشی طور پر مضبوط ہے، اگر ایسے ایک بچے کی بھی ذمہ داری لینے لگے تو سارا منظرنامہ ہی بدل جائے گا۔ بہرحال بچہ مزدوری پر قدغن لگانے کے لیے کئی تنظیمیں، آئی ایل او وغیرہ کوششیں کررہے ہیں۔ 2025تک بچہ مزدوری کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے بہتری کی امید فطری ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS