ای ڈی کی کارروائی، امید کی کرن

0

ڈیلٹا پلس بلیک فنگس، کورونا وائرس، لاک ڈائون، روزافزوں مہنگائی اور بے روزگاری، کم ہو تی اجرتوں کا عذاب جھیل رہے ہندوستانیوں کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی)نے ایک خوش خبری سنائی ہے۔ ای ڈی کے مطابق عوامی بینکوں سے اربوں روپے کاقرض لے کر فرار ہوجانے والے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں وجے مالیہ، نیرو مودی اور میہول چوکسی کی ملک و بیرون ممالک میں ضبط کی گئیں تقریباً23ہزار کروڑ روپے کی املاک میں سے 9 ہزارکروڑ روپے سے زائد کی املاک متعلقہ بینکوں اور حکومت کو منتقل کردی گئی ہیں۔ مالیاتی تفتیش کے اس خصوصی ادارہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مفروروجے مالیہ، نیرو مودی اور میہول چوکسی کے ضبط اثاثے فروخت کردیے گئے ہیں اور متعلقہ بینکو ں کو9,361کروڑ روپے لوٹادیے گئے ہیں۔ ہر چند کہ یہ رقم بینکوں کی کل واجب الادا 22,586کروڑ روپے سے بہت کم ہے پھر بھی ای ڈی اس کیلئے تعریف کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان بدعنوانی کے معاملے میں سابقہ تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے براعظم ایشیا کی سربراہی کا تاج اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے ہے مفرور نادہندگان سے اس وصولی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
دنیا بھر سے آنے والی رپورٹیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے اور جائز ے یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان ایشیا کا سب سے بڑا بدعنوان ملک ہے۔بدعنوانی کی ہزاروں قسمیں ہندوستان میں رائج ہیں، ان سب کے خاتمہ کیلئے حکومت نے بارہا اقدامات کے وعدے کیے لیکن کبھی ان وعدوں کی تکمیل میں مخلص نہیں رہی۔دنیا کے سب سے بڑے جمہور ی ملک کی پیشانی پر لگے بدعنوانی کے اس داغ کو حکومتیں74برسوںمیں بھی ہٹانے میں ناکام رہی ہیں۔قومی سیاست میں کانگریس کے زوال اورنریندر مودی کے شاندار عروج کی وجہ بھی بدعنوانی کا یہ بڑھتا ہوا ناسور ہی تھا۔ بدعنوانی کے خلاف نریندر مودی کے بلندبانگ دعوئوں اور وعدوں نے عوام کو ان کے حق میں ہموار کیا۔ نریندر مودی وزیراعظم بن گئے لیکن ہندوستان کی قسمت میں لکھی ہوئی بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں وہ بھی ناکام ہی ثابت ہوتے آرہے ہیں۔بڑے ہی تزک و احتشام اور جاہ و جلال کے ساتھ یہ کہہ کر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نافذ کیا گیاتھا کہ اس سے نہ صرف بدعنوانی کم ہوگی بلکہ دہشت گردی، جعل سازی اورہر طرح کے مالیاتی جرائم پر بھی قابو پالیا جائے گامگر ایسا قطعی نہیں ہوپایا۔اس دوران ستم یہ ہوا کہ مالیاتی بدنظمی، دھوکہ، فریب اور بینکوں سے قرض کی بندر بانٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا۔حکومت کی خاموشی یایوں کہئے کہ در پردہ حمایت کی وجہ سے عوامی اور نجی بینکوں نے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو قرضوں کی تقسیم میں حاتم تائی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ قرض خوروں کی سرکاری اور سیاسی سرپرستی کی وجہ سے بینک ان سے اپنی رقم کی وصولی میں بھی ناکام رہے اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بینکوں کا نن پرفارمنگ اسیٹس (این پی اے )آج دیوہیکل شکل اختیار کرگیاہے۔ ان قرضوں کی وصولی یا یوں کہیے کہ بازیافت تک کا امکان بھی معدوم ہوچکا ہے۔ دولت کی اتنی بڑی مقدار منجمد ہوجانے کی وجہ سے گردش زر کو بے پناہ دھچکا پہنچا۔ ملکی معیشت کی ڈوبتی کشتی میں اس صورتحال کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کا یہ عمومی مزاج رہاہے کہ جو کام مشکل نظر آئے اور نہیں ہوپارہاہو، اسے ٹال دیا جاتا ہے۔ این پی اے کی عدم وصولی میں بھی ہندوستان کا یہی مجموعی مزاج کام کررہا ہے۔
بھاری بھرکم قرض لے کر ملک سے فرار ہوجانے والے وجے مالیہ، نیرومودی اور میہول چوکسی کو ہندوستان لانے میں اب تک ملنے والی ناکامی کا غم ای ڈی کی جانب سے سنائی جانے والی خبر سے کچھ ہلکا ضرور ہوا ہے اور امید کی کرن نظرآئی ہے۔ بینکوں نے بھی اپنے طور پر تقریباً1357کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔اس کے علاوہ اس مفرور ’ خبیث ثلاثہ‘ کی بہت بڑی جائیداد بھی ضبط کی گئی ہے۔ انہیں بھی فروخت کرکے اس کی رقم بھی عوامی بینکوں کے واجبات کی مد میں فوری منتقل کی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ہی ان ملزمان کو وطن واپس لانے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی ضروری ہے۔ انہیں سزایا ب کرائے بغیر ملک کوایسے جعل سازوں اور دھوکہ بازوں سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ہندوستان کو بدعنوانی کی ذلت سے بچانے کیلئے صرف ضبطی اور قرقی ہی کافی نہیں ہے بلکہ پوری طاقت کے ساتھ ایسے افراد کا قلع قمع کرنابھی ضروری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS