ایمرجنسی اب معمول کی بات ہوگئی ہے

0

یوگیندر یادو

اس سال ایمرجنسی ڈے کی خاص اہمیت ہے۔ اس مرتبہ سنیکت کسان مورچہ نے ’’کھیتی بچاؤ، لوک تنتر بچاؤ‘ کے نعرے کے ساتھ اپنی تحریک کے نئے مرحلہ کا آغاز کیا ہے۔ آج پورے ملک میں کسان راج بھون کے سامنے دھرنا دے کر گورنر کے ذریعہ ملک کے صدر کو اپنی برہمی کا خط سونپیں گے۔
یوں تو ایمرجنسی 25جون کو آدھی رات سے 10منٹ پہلے لگادی گئی تھی لیکن عوام کو اس کا علم26جون کو ہوا جب صبح 8بجے وزیراعظم اندراگاندھی نے آکاش وانی پر قوم کے نام پیغام نشر کرتے ہوئے ایمرجنسی کی اطلاع دی۔ اس لیے جمہوری اور حقوق انسانی کی تنظیمیں 26جون کو ایمرجنسی ڈے مناتی ہیں۔ کسان تحریکوں نے بھی وہی دن منتخب کیا ہے۔ اتفاقاً کسان مورچہ کے 7ماہ بھی اسی دن پورے ہوتے ہیں۔
آج کے تناظر میں ایمرجنسی کو یاد کرنے کا مطلب ہے جمہوریت پر ہورہے حملوں پر روشنی ڈالنا۔ بیسویں صدی میں جمہوریت پر حملہ سیدھا ہوتا تھا۔ کوئی جنرل یا لیڈر ریڈیو پر آکر کوئی بہانہ بناکر جمہوریت کو کچھ وقت کے لیے معطل کرنے کا اعلان کرتا تھا۔ اندراگاندھی نے بھی یہی کیا تھا۔ اپنی کرسی پر آئے خطرے کو قومی خطرے کی طرح پیش کیا، غیرملکی طاقتوں کی سازش کی کہانی بنائی اور کچھ وقت کے لیے اس ایمرجنسی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے آئین کے کچھ التزامات معطل کرنے کا اعلان کیا۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ جلد سے جلد صورت حال ٹھیک ہونے پر ایمرجنسی ہٹالی جائے گی اور عام حالت بحال کردی جائے گی۔ آخرکار ایمرجنسی 19ماہ چلی، آخر میں اندراگاندھی کو منھ کی کھانی پڑی اور جمہوریت بحال ہوئی۔
اکیسویں صدی میں جمہوریت کا گلا گھوٹنے کی تکنیک بدل گئی ہے۔ چاہے روس ہو، یا ترکی یا پھر ہندوستان، اب جمہوریت کو ایک جھٹکے میں اعلان کے ذریعہ سے ختم نہیں کیا جاتا۔ اب جمہوریت کو ہر روز ایک ایک سوت کرکے ذبح کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا قتل کرنے والے اپنے آپ کو جمہوریت کا سب سے بڑا پجاری بتاتے ہیں۔ جمہوریت کو ختم کرنے کے لیے جمہوری اوزاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی جڑوں میں تیل دیتے وقت عوام کی حمایت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کو پوری طرح ختم نہیں کیا جاتا، اسے چھوٹا سا بونسائی کا پیڑ بناکر کانچ کے فریم میں سجا کر رکھا جاتا ہے۔

ایمرجنسی کی طرح آج بھی اپوزیشن پارٹیاں دبکی ہوئی ہیں، بے سمت اور طاقت سے محروم ہیں، کم و بیش خاموش بیٹھی ہیں۔ اگر کوئی اپوزیشن ہے تو پارلیمنٹ میں نہیں، سڑک پر ہے۔ ایسے میں کسان تحریک کے کندھوں پر صرف کھیتی کسانی ہی نہیں، جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری بھی آگئی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے اس مہم میں پورے ملک کی جمہوری تنظیموں سے جڑنے کی اپیل کی ہے۔ یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ جب جب کوئی کنس اسے ختم کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تب تک کہیں ایک کرشن پیدا ہوجاتا ہے۔

مودی حکومت میں جمہوریت کے ساتھ یہی کیا جارہا ہے۔ اس لیے آج ایمرجنسی کو نہیں دہرایا جارہا۔ آئینی نظام کو ایک اعلان کے ساتھ معطل نہیں کیا جارہا۔ بغیر کچھ کہے آئین کا سائز چھوٹا کیا جارہا ہے۔ آئین کے ذریعہ فراہم کردہ آزادی اور حقوق کی زمین سکڑتی جارہی ہے۔ آہستہ آہستہ ہر جمہوری ادارہ کے پر کترے جارہے ہیں۔ یہ نئی ایمرجنسی غیرعلانیہ اور پوشیدہ تو ہے ہی، لیکن لامحدود بھی ہے۔ اب ایمرجنسی ایک معمول کا دور بن گیا ہے۔ اب حکومت یہ بہانہ بھی نہیں بناتی کہ یہ ایک غیرمعمولی حالت کا قلیل مدتی علاج ہے۔ اب ہمیں سمجھایا جارہا ہے کہ یہی عام جمہوریت ہے۔ یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اس نئی ایمرجنسی جمہوریت میں الیکشن منسوخ نہیں کیے جاتے بلکہ الیکشن باقاعدگی سے کروائے جارہے ہیں۔ گاہ بہ گاہ حکمراں پارٹی الیکشن ہار بھی جاتی ہے، جیسا کہ ابھی بنگال میں ہوا۔ لیکن انتخابی دنگل کا اکھاڑہ حکومت کے حق میں جھکا ہوا رہتا ہے۔ پیسے کی طاقت، بازو کی طاقت اور میڈیا والے سب حکمراں جماعت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی جھکا ہوا نظر آتا ہے کوئی ایسا فیصلہ لینے سے کتراتا ہے جس سے حکمراں جماعت کو نقصان ہوسکتا ہے۔
اس دور میں ایمرجنسی کی طرح سینسرشپ کی ضرورت نہیں ہے، میڈیا خود اپنے آپ کو سینسر کرتا ہے، خود حکومت کا باجا بجاتا ہے۔ اب دوردرشن کا وہ کردار نہیں رہا جو اس زمانہ میں آکاش وانی کا ہوتا تھا۔ اب کہنے کو آزاد اور پرائیویٹ میڈیا کا بول بالا ہے۔ یوں تو مخالفت کی آواز بھی کبھی کبھی سنی جاتی ہے یہ مضمون اس کا نمونہ ہے لیکن زیادہ تر میڈیا زیادہ وقت تک حکومت سے بندھا ہے، کبھی خیالات سے، کبھی لالچ سے تو کبھی ڈر سے۔ جو صحافی یا ایڈیٹر حکومت کی مخالفت کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس کی نوکری چلی جاتی ہے جو اخبار یا چینل اس کردار میں آتا ہے وہ حکومت کے غصہ کا شکار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی حکومت کی ٹرول آرمی کا قبضہ ہے۔ ایمرجنسی کے وقت میڈیا کی آزادی کا کوئی اندیشہ نہیں تھا، آج اس دھوکہ کے سبب حالت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
آج آئین اور شہری کے بنیادی حقوق معطل نہیں کیے گئے۔ لیکن ایمرجنسی کی طرح حکومت کے خلاف منھ کھولنے والے ملک سے بغاوت کے الزام میں بند ہیں۔ اندراگاندھی کے زمانہ کی طرح عدالت سے وفاداری کی امید کی جارہی ہے۔ تحقیق کرنے والی تمام سرکاری ایجنسیاں حکمراں پارٹی کی ایجنسی کی طرح کام کررہی ہیں۔ آئین کی دستوری توضیح تھانہ دار کررہا ہے۔
ایمرجنسی کی طرح آج بھی اپوزیشن پارٹیاں دبکی ہوئی ہیں، بے سمت اور طاقت سے محروم ہیں، کم و بیش خاموش بیٹھی ہیں۔ اگر کوئی اپوزیشن ہے تو پارلیمنٹ میں نہیں، سڑک پر ہے۔ ایسے میں کسان تحریک کے کندھوں پر صرف کھیتی کسانی ہی نہیں، جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری بھی آگئی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے اس مہم میں پورے ملک کی جمہوری تنظیموں سے جڑنے کی اپیل کی ہے۔ یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ جب جب کوئی کنس اسے ختم کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تب تک کہیں ایک کرشن پیدا ہوجاتا ہے۔
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور سوراج انڈیا کے صدر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS