محمد حنیف خان
دنیا نے صنعتی ترقیات کی خواہش میں اپنے وجود کو تہہ و بالا کردیا۔آج حالات یہ ہوگئے ہیں کہ پوری دنیا گلوبل وارمنگ اور آبی سطح کی تبدیلی سے پریشان ہے۔ابھی چند دن قبل ہی پاکستان میں وہ تباہی آئی جس نے انسانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر انسانی وجود کی علامت ان کی بستیوں کا نام و نشان مٹا دیا۔ پاکستان کے متعلقہ علاقہ کے افراد نے اس سے قبل کبھی ایسی قیامت نہیں دیکھی ہوگی۔دوسری طرف ہندوستان میں اسی آبی تبدیلی کے نتیجے میں کچھ علاقوں کو بارش کے لئے ترسنا پڑ گیا۔ شمالی ہند میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے دھان کی فصلیں تباہ و برباد ہوگئیں۔کسان پمپ سیٹ سے آبپاشی پر مجبور ہوئے لیکن دھان ایسی فصل ہے جوپمپ سیٹ کی بنیاد پر منافع بخش نہیں ہوسکتی۔بعض کسان تو ایسے بھی تھے جنہوں نے حتی المقدور رقم صرف کی اور آخر میں تنگ آ کر انہوں نے تپتی دھوپ میں ہرے پودوں کو سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا۔جب وہ پودے کھیتوں میں سوکھ رہے تھے تو وہ صرف پودے نہیں تھے بلکہ وہ ان کی آرزوئیں اور خواہشات تھیں۔ غریب کسانوں کی آرزوئیں اور خواہشات اس لئے سورج کی آگ میں جل رہی تھیں کیونکہ دنیا کے بڑے بڑے اور صنعتی ممالک نے اپنے خزانے بھرنے کے لئے ایسا عمل کیا تھا جسے یہ کسان بھگتنے پر مجبور تھے۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جن کسانوں نے یہ سوچا کہ انسان دانہ ہی کھاتا ہے پیسہ نہیں ،انہوں نے پمپ سیٹ سے آبپاشی کرکے جب فصل کو تیاری تک پہنچایا تو قدرت نے ایک بار پھر قہر برپایا اور ہفتے بھر وقفے وقفے سے موسلا دھار بارش ہوتی رہی جس میں یہ فصل کھیتوں میں گر کر تباہ ہوگئی ۔اس طرح دونوں طرح کے کسان تباہ و برباد ہو گئے۔
یہ صرف شمالی ہند کا ہی معاملہ نہیں ہے ،اسی طرح کے حالات پورے ہندوستان اور پوری دنیا میں ہیں۔ہر جگہ آبی تبدیلی کی سطح نے تباہی مچا رکھی ہے۔اسی تباہی سے بچنے کے لئے یا نقصان کو کم کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جسے Conference of Parties(COP)کا نام دیا گیا ہے۔جس کا 27واں اجلاس مصر کے شرم الشیخ میں ہوا اس میںہندوستان بھی شامل ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گذشتہ 26اجلاسوں سے دنیا کو کیا حاصل ہوا؟بادی النظر میں اگر دیکھا جائے تو بہت کچھ حاصل یوں ہوا کہ جب دنیا کے امیر و غریب ممالک مل بیٹھ کر سوچتے ہیںتو مسائل کا حل نکلتا ہے اور آبی تبدیلی کے مسئلہ کا حل اس طور پر نکلا کہ صنعتی سرگرمیوں کو ان اجلاس کے نتیجے میں دستاویزی سطح پر کم کردیا گیا یا پھر اس سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی گئی۔مگر کیا وہ بھر پائی اس لائق ہے جس سے غریب ممالک اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں؟شاید نہیں۔
اس بار اس اجلاس کا تھیم یہی رکھا گیا ہے کہ کرہ ارض خطرے کا لارم دے رہا ہے۔ در اصل جب فطرت کے خلاف قدرتی ذخیروں کا استعمال کیا گیا تاکہ دنیا نئی ترقیات سے ہمکنار ہوسکے تو اس کے بد نتائج اس طور پر سامنے آئے کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور آج کرہ ارض خطرے کا الام دے رہا ہے کہ اگر اب بھی نہ سنبھلے تو انسانی کرتوت کے نتیجے میں یہ دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی۔
صنعتی ترقیات کا یوں تو فائدہ پوری دنیا کو ہوتا ہے لیکن اس فائدے کا ارتکاز امیر ممالک پر رہتا ہے اور وہی اس آبی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔جس کی وجہ سے سیلاب ،خشک سالی، سمندری طوفان،لینڈ سلائڈنگ اور جنگلو ں میں آگ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے سب سے زیادہ نقصان غریب ممالک کا ہوتا ہے۔اس لئے اب غریب اور ترقی پذیر ممالک بڑے اور صنعتی ممالک سے اس نقصان کی بھرپائی کا تقاضہ کر رہے ہیں لیکن کیا صنعتی ممالک کی بھرپائی سے واقعی اس طرح کے نقصانات کی بھرپائی ہو سکتی ہے؟صنعتی ممالک خواہ کتنی ہی بڑی رقم کیوں نہ دے دیں مگر قدرت کے بگاڑے ہوئے نظام کی بھر پائی ممکن نہیں ہے۔اس لئے اگر گفتگو ہو رہی ہے تو ایسی سرگرمیوں پر روک سے متعلق ہونی چاہئے جن کی وجہ سے آبی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔بھلا کوئی ملک کسی ایک انسان کی جان کی قیمت کیا دے سکتا ہے؟کسی کی موت اور تباہی کے بعد دنیا اس کے قدموں میں رکھ دی جائے تو اس مرنے والے کو اس سے کیا ملے گا؟ اس لئے آبی سطح میں تبدیلی سے کسی بھی شکل میں ہونے والی انسانی اموات کو سب سے اوپر رکھنا چاہئے کیونکہ انسانی زندگی بیش بہا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امیر ممالک غریب ممالک کو آبی سطح کی کی تبدیلی کے ساتھ ہی گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے کے لے ہر سال 100ارب ڈالر کی رقم دینے کو تیار ہوئے ہیں۔دیکھئے کس طرح مادیت انسان کو حقیر تصور کرتی ہے ۔جس کے پاس پیسہ ہے اس کے لئے جان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے اور جس کے پاس پیسہ نہیں ہے وہ اپنی جان کی امان کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ اس آبی تبدیلی سے دنیا کس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے مگر اس سے باز رہنے کے بجائے غریب ممالک میں ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کے لئے ڈالر کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
آبی سطح کی تبدیلی سے ہونے والے نقصان اور ہرجانے کی رقم کا اندازہ لگانے کے لئے پوری دنیا میں سو سے زیادہ ماہرین اور پالیسی ساز افراد کام کر رہے ہیں۔ان ماہرین کی جماعت ’’لاس اینڈ ڈیمج کولابوریشن ‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ آبی سطح میں تبدیلی کی وجہ سے مخدوش حالات میں جو معیشیتں سامنے آئی ہیں ان میں سے 55معیشتوں کو سال 2000سے 2020کے درمیان آبی سطح کی تبدیلی کی وجہ سے ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔آئندہ دہائی میں اس نقصان میں نصف ٹریلین کا مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق موجودہ آبی سطح میں اگر جزوی اضافہ بھی ہو گیا تو اس سے نقصان حد درجہ بڑھ جائے گا۔ترقی پذیر ممالک میں 2030تک آبی سطح میں تبدیلی سے ہونے والا نقصان 290سے 580ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔دنیا پہلے ہی صنعتی انقلاب کی وجہ سے پہلے کے مقابلے اوسطا 1ڈگری سلیس کا اضافہ دیکھ چکی ہے۔اس سے زیادہ کا مطلب ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور غریب ممالک میں رہنے والے انسان کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزاریں کیونکہ تباہی و بربادی ان کا مقدر ہوگی۔یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ دنیا میں اکثر و بیشتر ممالک میں سیاست داں بدعنوان ہیں ،اور بیوروکریسی عوام کے بجائے اپنی جیبیں بھرتی ہے ۔ایسے میں اگر شرم الشیخ میں ’’آبی تبدیلی سے ہرجانہ اور نقصان‘‘پر گفتگو نتیجہ خیز ہو اور آئندہ برس دوحہ قطر کے اجلاس میں طے بھی ہوجائے تو ملنے والی رقم سے عوام کا بھلا ہونے کے بجائے یہ رقم بدعنوان سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی نذر ہو جائے گی جیسا کہ اب تک دیکھنے میں آیا ہے۔
ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔اس کے اپنے اہداف ہیں، اس لئے اس کو غیر جانبدار ہو کر دنیا کی بھلائی کے لئے اس اسٹیج کا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ سب سے زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کا ہی ہو رہا ہے ،وہ آگے بڑھنے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں مگر دنیا کے حالات اور آنے والی آفات اس کا راستہ روک لیتی ہیں اور بنے ہوئے گھروندے بگڑ جاتے ہیں جنہیں بنانے میں وہ پھر مصروف ہوجاتے ہیں اس لئے ان ممالک کو سامنے آنا چاہئے جن کی قیادت کرنے کی صلاحیت صرف ہندوستان میں ہے۔
[email protected]