ریزرویشن کاحقیقی مقصد معاشرتی مساوات

0

معاشی بنیاد پرعام زمرے کیلئے10 فیصد ریزرویشن پر سپریم کورٹ کی مہر کے بعدریزرویشن پر سیاسی ہنگامہ تیز ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر جنوبی ہندوستان کی ریاست تمل ناڈو میںیہ ایک بڑا موضوع بن گیا ہے ۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی پارٹی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلے کو چیلنج کرے گی۔ ڈی ایم کے نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ آئین میں درج مساوات کے اصول پر ضرب لگاتا ہے اور سماجی انصاف کی پرانی جدوجہد کیلئے ایک دھچکا ہے۔ ریاست کے وزاعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس فیصلہ کے خلاف حکمت عملی تیار کرنے کیلئے 12 نومبر کو ریاست کی تمام جماعتوں کی میٹنگ بلائی ہے۔ دوسری طرف بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارنے ملک بھر میں ذات پات کی مردم شماری کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے 50 فیصد کوٹہ کی حد میں اضافہ پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریزرویشن آبادی کے تناسب کے مطابق ملنا چاہئے ایس سی ایس ٹی کے سلسلے میں تو اس تناسب کا خیال رکھاگیا ہے لیکن او بی سی کی 52 فی صد آبادی کے مقابلے میں انہیں صرف27فی صد ہی ریزرویشن حاصل ہے اب 10فی صد ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ 50 فیصد کے کوٹہ کی حد کو بڑھایاجائے اوراس کیلئے ذات کی بنیادپر مردم شماری ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ریزرویشن انسدادغربت کا کوئی پروگرام نہیں بلکہ یہ ہزاروںبرس سے استحصال کے شکار چلے آرہے ہندوستان کے دلت اور پسماندہ طبقات کو مساوی سطح پر لانے کا آئینی انتظام ہے۔ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد یہ امید تھی کہ ہندوستان کا ہرفرد غلامی سے آزادہوجائے گا لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوا۔ فرنگیوںکی محکومی ضرور ختم ہوگئی ‘غیر ملکی حکمراں ملک چھوڑ کر چلے گئے لیکن ہندوستانی عوام اور حقیقی آزادی کے درمیان سیکڑوں سال کی دوری میں ایک رتی بھر کی کمی نہیں آئی۔5ہزار سال سے جاری رہنے والی قبیح معاشرتی اورسماجی نظام کی جکڑبندی میں کوئی ڈھیل نہ آئی۔معمار آئین بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر ‘ بابائے قوم مہاتماگاندھی اور دوسروں نے ہندوستانی سماج کی اس برہنہ حقیقت کو پہلے ہی محسوس کرلیا تھا اور اسی کی بنیاد پر ہمارے آئین میں جمہوریت، مساوات، سوشلزم اور سیکولرازم جیسے باب شامل کئے گئے اور آئین نے تمام ہندوستانیوں کیلئے مساوی حیثیت اور بنیادی حقوق قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ سماج کے کمزورطبقات کو دوسروں کے مساوی لانے کیلئے ’ ریزرویشن‘ کا اہتمام کیاگیا اور اس کیلئے 10برسوں کی مدت مقرر کی گئی ۔
نئے آزاد ہندوستان میں ذات پا ت کا خوف ناک امتیازختم کرنے کیلئے درج فہرست ذات(ایس سی ) اوردرج فہرست قبائل (ایس ٹی) کیلئے کچھ تحفظات متعارف کرائے گئے لیکن ان 10برسوں میں ہزاروں سال سے چلاآرہا نسلی امتیازنہ ختم ہونا تھا نہ ہوا پھر یہ 10برس کئی بار بڑھائے جاچکے ہیں لیکن سماجی انصاف اور معاشرتی مساوات کے حصول میں ہندوستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں آزادی سے پہلے تھا۔ چھوت چھات‘ ذات پات کی لعنت ختم ہونا تو کجا کم بھی نہیں ہوئی ۔اس کیلئے جہاں نظام کی خرابیاں ذمہ دار تھیں وہیں ’ ریزرویشن ‘ کو سیاست کے طور پر استعمال کرنے والی سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈران کی بدنیتی نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔پھر1991میں راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے منڈل کمیشن نے پورے ملک میں کھلبلی مچادی اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے نام سے ایک نیا ریزرویشن متعارف کرایاگیا۔اس کے بعد ریزرویشن کا تناسب مجموعی طور49.5فی صد ہوگیا۔اس ریزرویشن کا حقیقی مقصد ایس سی ؍ایس ٹی اوران پسماندہ طبقات کو جنہیں سماج کے ایک بڑے طبقے نے صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے تعلیم ‘ ترقی ‘ روزی روٹی حتیٰ کہ زر ‘ زن اورزمین تک سے محروم رکھاتھا‘کو تعلیم اور ملازمت میں کچھ ریزرویشن دے کرانہیں برابری کی سطح پرآنے کا آئینی موقع دیناہے ۔
اس انتظام کے ذریعہ ہندوستان میں سماجی انصاف اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کی سبیل نکالی گئی لیکن اس میں بھی نام اونچی ذات سدراہ بنارہا۔برسوں کی نفرت، حقارت، تذلیل اور غیر انسانی رویہ کے شکار اس طبقہ کو ملنے والی اس معمولی سہولت پرسوالات اٹھائے جاتے رہے۔ ذات پات کے بجائے معاشی بنیادوں پر ریزرویشن کا نظام بنانے کی وکالت بھی ہوتی رہی ہے ۔اب سپریم کورٹ کے فیصلہ نے بھی سماجی انصاف کی اس کوشش کو نیا رخ دے دیا ہے۔ایک طرف صدیوں سے ناانصافی کا شکار ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ہے تو دوسری جانب غربت کے مسئلہ میں الجھی ہوئی اعلیٰ ذات ہے۔ ثانی الذکر کیلئے انسدادغربت کے کئی پروگرام حکومت چلارہی ہے لیکن صدیوں سے ناانصافی ذلت، حقارت اور تذلیل سہنے والے طبقہ کیلئے ریزرویشن کی معمولی سہولت کے علاوہ اورکوئی انتظام نہیںہے ۔اگر اس سہولت میں بھی غربت کے نام پر دھیرے دھیرے اعلیٰ ذات کو شامل کیاجاتارہاتو پھر ریزوریشن کا حقیقی مقصدہی فوت ہوجائے گا ۔اب دیکھنا ہے کہ ایم کے اسٹالن کی کل جماعتی میٹنگ میں اس کے خلاف کیا حکمت عملی طے ہوتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS