بدلئے ٹیکہ کاری کی حکمت عملی

ویکسین کی کمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہدف پر مبنی ترجیح طے کرنی پڑے گی۔ دیکھنا ہوگا کہ ٹیکہ کاری کہاں اور کن کے لیے زیادہ ضروری ہے

0

کرن مجومدار شا

دنیا میں ویکسین کے سب سے بڑے پیداواری ملک کے طور پر نمایاں ہندوستان کووڈ-19کی اس مہلک دوسری لہر میں اپنی اہل آبادی کی ٹیکہ کاری کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ کورونا کی یہ لہر نہ صرف لوگوں کی جان لے رہی ہے، بلکہ ان کے معاش کو بھی ہضم کررہی ہے۔ اس سے ہماری معیشت سنگین طور پر متاثر ہوئی ہے، جس میں کچھ ماہ پہلے بہتری کے اشارے نظر آئے تھے۔ ملک میں دو ٹیکوں کی منظوری اور انفیکشن کے معاملہ میں سب سے نچلی سطح پر پہنچنے کے سبب سال 2021کی ایک امیدافزا شروعات ہوئی تھی۔ لیکن اب ہم دنیا میں سب سے زیادہ کووڈ معاملوں سے نبردآزما ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ موت کے اعدادوشمار میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔
پہلی لہر میں وائرس نے عموماً بزرگوں اور دیگر بیماریوں سے متاثر لوگوں کو زیادہ نشانہ بنایا تھا، لیکن اس مرتبہ اس نے نوجوانوں کی بھی جان لی ہے۔ مرنے والے 20فیصد لوگوں کی عمر45سال سے کم ہے۔ یہ ٹیکہ کاری کی ہماری حکمت عملی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ جنوری کے وسط میں جب ہندوستان نے ٹیکہ کاری مہم کی شروعات کی تھی، تب ہم نے عمر پر مبنی حکمت عملی اپنائی اور پہلے سے محاذ پر تعینات ہیلتھ ورکروں کو ٹیکہ لگایا۔ یکم فروری سے 60سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے اور یکم مئی سے 18سال و اس سے زیادہ عمر کے لیے ٹیکہ کاری شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ حالاں کہ ہمیں جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ ہماری بالغ آبادی کو ٹیکہ لگانے کے لیے ٹیکہ کی جتنی خوراک چاہیے، اتنی ہمارے پاس نہیں ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اس کے لیے 2.2ارب خوراک کی ضرورت ہے جو دسمبر تک تیار کی جاسکتی ہے۔ لیکن کئی لوگ اسے زیادہ پرامید اور سچ سے منھ پھیرنے والا تخمینہ بتارہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کا ماننا ہے کہ کووڈشیلڈ، کو-ویکسین، اسپوتنک-وی، جائیکوو-ڈی، نوواویکس جے اینڈ جے مل کر دسمبر، 2021تک آدھا یا تقریباً 1.2ارب خوراک ہی پوری کرسکتے ہیں، جب کہ فائزر، اسپوتنک اور ماڈرنا سے ممکنہ10-20کروڑ خوراکیں درآمد کی جاسکتی ہیں۔ اس سے زیادہ تو قطعی ممکن نہیں ہے۔

ایک مرتبہ جب شہر محفوظ ہوجائیں، تب اس کے بعد شہروں میں آنے جانے والے راستوں پر اور آخر میں ریاست کے باقی حصہ میں ٹیکہ کاری کی زبردست مہم چلائی جاسکتی ہے۔ یہ ماڈل پورے ملک میں اپنایا جاسکتا ہے۔ ٹیکہ کی کمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ٹیکہ کاری کے لیے ہدف پر مبنی ترجیح طے کرنی ہوگی۔ یہی ابھی کی صحیح حکمت عملی ہوگی۔

ایسے میں ہمارا چیلنج ٹیکہ کاری کی ایسی حکمت عملی تیار کرنے کا ہے، جو نہ صرف خطرے والے لوگوں کی جان بچائے، بلکہ انفیکشن کے پھیلاؤ پر بھی لگام لگائے۔ آخری مردم شماری کے مطابق 63فیصد آبادی 18برس سے زیادہ عمر کی ہے اور اسی لیے وہ ٹیکہ کاری کی اہل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں پورے ملک میں تقریباً 82کروڑ لوگوں کو ٹیکہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مان لیں کہ 18کروڑ لوگوں نے ٹیکہ کی کم سے کم ایک خوراک لی ہے، تب بھی 64کروڑ لوگ ابھی ٹیکے سے دور ہیں۔ چوں کہ ’ہرڈامیونٹی‘ کے لیے 70فیصد آبادی کو ٹیکے کی دونوں خوراکیں لگانی چاہیے، اس لیے اب تقریباً 45 کروڑ لوگوں کی ٹیکہ کاری ضروری ہے، جس کے لیے ہمیں 90کروڑ خوراک درکار ہے۔ اسی لیے موجودہ پیداوار بھی ہمیں سال کے آخر تک محفوظ حالت میں پہنچنے اور تیسری لہر کو ٹالنے میں مدد کرسکتی ہے۔ اور جنوری 2022سے ہم 20کروڑ ماہانہ کے حساب سے بوسٹر ڈوز دینا بھی شروع کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ٹیکہ کی ایک بھی خوراک برباد نہ ہو اس لیے ہمیں اس کے ذخیرہ، ڈھلائی وغیرہ کا انتظام درست کرنا ہوگا اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب مرکزی انتظام کے برعکس یہ ذمہ داری ریاستوں کو دی جائے۔ ابھی مرکزی حکومت نے ایک ماڈل کا اعلان کیا ہے جس میں 50فیصد خرید مرکز کرے گا، جبکہ باقی ریاستی حکومتیں اور پرائیویٹ سیکٹر۔ یقینا ریاستوں میں ٹیکہ کی خرید اور مشترکہ ذمہ داریوں کے ساتھ اس کی تقسیم سے متعلق پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ(پی پی پی) کا یہ ماڈل ٹیکہ کاری میں کارگر ثابت ہوگا۔
ضرورت وبا سائنس کے حساب سے ٹیکہ کاری کو آگے بڑھانے کی بھی ہے۔ جب ٹیکے کم ہوں، تب انصاف پر مبنی تقسیم کے بجائے ہمیں اس کا اس طرح بٹوارا کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہو۔ جیسے ہمیں ضلعی لحاظ سے آبادی کی کثافت، انفیکشن کے معاملے، شرح اموات اور دوگنے ہونے کی شرح جیسے معیار کی بنیاد پر ٹیکہ کاری کی ترجیح طے کرنی چاہیے۔ اس کے بعد خطرے اور انفیکشن کے حساب سے جس کاروبار کو خطرہ زیادہ ہے، اس کے اہلکاروں کو توجہ دینی چاہیے۔ اگر ہم کرناٹک کو ایک مثال سمجھیں تو بنگلورو کو اولین ترجیح دینی ہوگی، جس کے بعد میسور، بیلاری، جنوبی کنڑاضلاع، دھارواڑ جیسے علاقے ہوں گے۔ مہاراشٹر میں ممبئی، پونے، ناسک، اورنگ آباد کا نمبر پہلے آئے گا۔ پنجاب میں لدھیانہ، امرتسر، پٹیالہ جیسے علاقوں کو ترجیح دی جائے گی۔
کرناٹک میں 50فیصد ٹیکے بنگلور اور باقی ٹیکے تیز انفیکشن والے اضلاع میں بھیجنا صحیح حکمت عملی ہوگی۔ ہر شخص کو کم سے کم ایک خوراک دینے کے لیے کرناٹک کو اگلے تین ماہ تک 50لاکھ خوراک فی ماہ کے حساب سے چاہیے۔اس سے ہم انفیکشن کا پھیلاؤ روک سکتے ہیں۔ ایک ماہ میں 50لاکھ خوراک دینے کے لیے ہمیں ریاست میں روزانہ 1.5لاکھ ٹیکہ کاری کرنی ہوگی۔ اگر بنگلورو کو ہر ماہ 25لاکھ لوگوں کو ٹیکہ لگانا ہے تو وہاں 500ٹیکہ کاری مراکز کی ضرورت ہوگی، جہاں ہر دن 100-250خوراکیں تقسیم کی جائیں۔ گندی بستیوں، مقامی بازاروں اور تعمیراتی مقامات میں روزانہ 1,000خوراک لگانے کے لیے اجتماعی ٹیکہ کاری کیمپ بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ٹیکہ کاری میں تیزی آئے گی، بلکہ ٹیکے سے متعلق لوگوں کی جھجھک بھی کم ہوگی۔
بزنس بیسڈ کلاسز میں ڈلیوری کرنے والے ملازم، کیب ڈرائیور، دکان دار، دکان کے ملازمین، تعمیراتی کام میں مصروف مزدور وغیرہ کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والے لوگ، گیٹیڈ سوسائٹی اور پھر بلڈر فلیٹ میں اکیلے رہنے والے لوگوں کی ٹیکہ کاری کی جاسکتی ہے۔
ایک مرتبہ جب شہر محفوظ ہوجائیں، تب اس کے بعد شہروں میں آنے جانے والے راستوں پر اور آخر میں ریاست کے باقی حصہ میں ٹیکہ کاری کی زبردست مہم چلائی جاسکتی ہے۔ یہ ماڈل پورے ملک میں اپنایا جاسکتا ہے۔ ٹیکہ کی کمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ٹیکہ کاری کے لیے ہدف پرمبنی ترجیح طے کرنی ہوگی۔ یہی ابھی کی صحیح حکمت عملی ہوگی۔
(مضمون نگار بایوکان کی چیئرپرسن ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS