اترپردیش اسمبلی انتخاب میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کوکئی بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ایک طرف اس کے پرانے وفادار ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑ رہے ہیں تو دوسری جانب ریاست میں انتخابی ایجنڈا بھی تبدیل ہونے لگا ہے۔ ہندو توکے برق رفتار گھوڑے پر سوار بی جے پی کے سامنے ا ب دلتوں پر مظالم اور پسماندہ طبقات سے ناانصافی جیسے سنگین سوالات آکھڑے ہوئے ہیںاور ان سب کے درمیان حزب اختلاف کانگریس اوردوسری پارٹیوں بشمول سماج وادی پارٹی و راشٹریہ لوک دل اتحا د نے امیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے وہ بھی بی جے پی کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
کانگریس نے یوپی اسمبلی انتخابات میں دلتوں اور خواتین پر مظالم، بڑھتی بے روزگاری، طبی سہولیات کا فقدان جیسے انتخابی موضوعات کا اعلان کرتے ہوئے 125امیدواروں کی فہرست جاری کی ہے، اس میں نوجوانوں اور خواتین کی نہ صرف بھاری بھرکم نمائندگی ہے بلکہ سماجی انصاف کے اصولوں کا بھی بھر پور لحاظ رکھاگیا ہے۔ جمعرات کو جب پرینکا گاندھی نے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی تو انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد صرف ہنگامہ کرنا نہیں ہے، کانگریس کی کوشش ہے کہ چہرہ بدلا جائے۔ پرینکا گاندھی نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین کو سیاسی اور سماجی طور پر بااختیار بنانے کیلئے خواتین کو آگے بڑھائیں گی اور اس کیلئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ کانگریس اس بار 40 فیصد خواتین امیدواروں کو کھڑا کرے گی۔ اپنے اس اعلان کو انہوں نے عملی جامہ پہنا دیا ہے۔پریس کانفرنس میں امیدواروں کا اعلان کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہاکہ125 امیدواروں کی فہرست میں سے 50 خواتین ہیں۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ ایسے امیدوار ہوں جو پوری ریاست میں جدوجہد کر رہے ہوں اور نئی سیاست کی شروعات کر رہے ہوں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ ان نوجوانوںکے ذریعے یوپی کی سیاست کو ایک نئی سمت دے سکیں۔ کانگریس نے سون بھدر قتل عام کے متاثرین میں سے ایک رام راج گونڈ کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ کورونا وباکے دور میں خدمات فراہم کرنے کی بجائے حکومت سے تشدد کا نشانہ بننے والی آشاکارکن پونم پانڈے کوشاہجہاں پور اور این آر سی – سی اے اے کے خلاف آوازاٹھانے پر جیل جانے والی صدف جعفرکو لکھنؤ سینٹرل سے کانگریس نے امیدواربنایا ہے۔کانگریس نے ٹکٹوں کی تقسیم سے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مظلوم، استحصال زدہ اور محروم سماج کے ساتھ کھڑی ہے۔اپنے اس اقدام سے کانگریس نے اترپردیش اسمبلی انتخاب میں انتخابی مسائل و موضوعات کوبھی تبدیل کردیا ہے۔
اسی طرح سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل اتحاد نے پہلے مرحلے کے تحت مغربی اترپردیش کے 29اسمبلی حلقوں کیلئے مجموعی طور پر29امیدواروں کا اعلان کیا ہے جن میں سے9مسلمان ہیں۔
اب تک یہ دیکھاجارہاتھا کہ سیاسی پارٹیاں جیتنے والے، دولت مند اور دبنگ افراد، گرگ باراں دیدہ سیاست داں اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے لیڈروں کو ہی اپنا امیدوار بناتی رہی ہیں۔ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے اور محروم و پسماندہ طبقہ کے لوگوں کو سیاست میں آنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں انہیں ٹکٹ ملنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ لیکن اس بار اترپردیش انتخاب میں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل اتحاد کے امیدواروں کی فہرست میں ایک نئی تبدیلی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے بڑا دھچکا بھی ہے اور ایک طرح سے چیلنج بھی ہے کہ وہ بھی خواتین اور استحصال زدہ و محروم طبقات کے حق میں ایساہی بڑا قدم اٹھائے۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے یہ چیلنج اس لیے بھی بڑا ہے کیوں کہ گزشتہ تین چار دنوںمیں بھارتیہ جنتاپارٹی چھوڑنے والے وزرا اور لیڈروں نے پارٹی پرجو فرد جرم عائد کیا ہے، ان میں دلت اور پسماندہ طبقات، چھوٹے اور درمیانہ درجے کے تاجروں، کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کی ’ دشمن ‘ اور انہیں مسلسل محروم رکھنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کیا قدم اٹھاتی ہے۔
[email protected]
بی جے پی کیلئے چیلنج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS