مولاناتوحیدرضاعلیمی
معاشرے میں بڑھتی نفرتوں اور عداوتوں کے درمیان ہم اور آپ بقیہ زندگی کے ایام گزار رہے ہیں سب انسان محبت امن و امان وعافیت وسلامتی چین وسکون والی زندگی گزارناچاہتے ہیں!سوائے انسانیت دشمن کے: تلخ کلامی وبیہودہ و آوارہ گفتگو کی وجہ سے عوام و خواص کے قلوب پرخراش پڑتی ہے خاندانوں میں عداوتیں پروان چڑھتی ہیں کبھی کبھی تلخ کلامی کی وجہ سے قتل وغارت گری کابھی قوی اندیشہ رہتا ہے۔
توایسے معاشرے میں قرآن وحدیث پرعمل کرتے ہوئے ہم میٹھے بول اچھی گفتگو شیریں کلامی سے آپس میں گفتگو کریں تو قرآن وحدیث پرعمل کرنے کاثواب بھی ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے دلوں میں محبت بھی پیداکردی جاتی ہے۔
میٹھے بول کی برکتیں: میٹھے بول صفحہ دل پر نقش ہوتے ہیں ۔ میٹھے بول اپنے اندر تاثیررکھتے ہیں۔ میٹھے بول سامعین پر کچھ اثر چھوڑتے ہیں ۔میٹھے بول سے حضرت انسان عزت بھی پاتے ہیں۔ میٹھے بول اور مضبوط دلائل سے نفرت کا خاتمہ ممکن ہے اللہ پاک نے ہمیں اپنی آواز کوپست کرنے کاحکم دیاہے! اللہ رب العزت فرماتاہے ترجمہ: اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر! زمین پر اِتراکر تکبر وغرور وگھمنڈ سے نہ چلیں بلکہ زمین پر آہستہ قدم رکھیں۔ اللہ پاک نے فرمایا۔اور زمین پراتراتانہ چل بے شک تو ہرگز زمین نہ چیرڈالیگا اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کونہ پہنچیگا۔ اور اپنی آوازوں کوپست رکھنے کا حکم دیاگیاہے اور آگے فرمان خداہے۔ بے شک سب آوازوں میں بری آواز گدھے کی آواز ہے تو پتہ چلاکہ سب آوازوں میں بری آواز گدھے کی آواز ہے اسی آیت کریمہ کی تفسیر تفسیر خزائن العرفان میں ہے، شور مچانا اور بلند آواز کرنا مکروہ ونا پسندیدہ ہے۔ اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے۔ گدھے کی آواز با وجود بلندہونے کے مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔
اور صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اچھی اور میٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے۔
اچھی گفتگو نجات کا ذریعہ : حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اعظم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو جو شخص یہ نہ پائے تو وہ اچھی گفتگو کے ذریعہ جہنم سے نجات حاصل کرے ۔
واضح گفتگو کرنا حضورؐ کی سنت ہے سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو اسے تین بار دہراتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ شفیع محشر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی گفتگو نہایت واضح ہوتی تھی جسے ہر سننے والاسمجھ لیتا تھا۔
زبان کی حقیقت: زبان جب بری باتیں کہتی ہیں تو دل سیاہ ہو جاتا ہے اور جب اس سے حق بات نکلتی ہے تو دل روشن ہوجاتا ہے جب جھوٹ نکلتا ہے تو دل اندھا ہو جاتا ہے اور اس آئینہ کی طرح ہو جاتا ہے جس میں چمک نہیں رہتی۔ زبان کی آفت اور خرابی، جھوٹ بولنا گالی دینا فضول باتیں کرنا زبان درازی کرنا ہے۔
خاموشی میں نجات ہے: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو خاموش رہا اس نے نجات پائی، حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اعظم حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل بہتر ہے تو حضورِ انور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے دہن مبارک سے زبان اطہر کو باہر نکال کر اس پر انگلی رکھی یعنی خاموشی۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو خداوند تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس سے کہہ دو اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی آدم کے اکثر گناہ اس کی زبان میں ہیں شفیع محشر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو ایک بہت ہی آسان عبادت کی خبردوں وہ زبان کی خاموشی اور نیک عادت ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایاکہ عبادتیں دس ہیں ان میں سے نو تو خاموشی میں ہیں اور دسویں عبادت لوگوں سے بچنا اور گریز کرنا ہے۔
عذاب میں مبتلا: جو زیادہ باتیں کرتاہے وہ جھوٹ بھی زیادہ بولتاہے اور دوسروں کی غیبت بھی کرتاہے حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں جس کاکلام زیادہ ہوگا اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی۔ جس کا مال زیادہ ہوگا اس کے گناہ زیادہ ہوں گے جس کے اخلاق برے ہوں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔
زبان کی احتیاط: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں منافق میں نہیں ہوتیں(1) دین کی سمجھ (2) زبان کی احتیاط(3) چہرے پر تبسم (4) دل کا نور (5) مسلمانوں سے محبت۔ جب صبح ہوتی ہے تو اعضازبان سے کہتے ہیں کہ اے زبان اگر تو اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھے گی تو ہم ہلاک ہو جائیں گے! ہمیں چاہیئے کہ فضول اور بیہودہ باتیں کر کے اپنے نامہ اعمال کو نہ بھریں بلکہ اللہ تعالی کا ذکر اور درود شریف، تلاوت قرآن اور دیگر وظائف سے نامہ اعمال کوپرکریں تاکہ کل قیامت میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ تو پتہ چلا کہ ہمیشہ خوش کلامی یعنی اچھی اور میٹھی بات کرنا چاہئے۔