دین کا راز سچ بولنے اور حلال روزی میں مضمر

0

طارق نعمان گڑنگی

کائنات کی صنعت کاری میں اگرغور وفکر کریں تو یہ حقیقت پنہاں نہیں رہتی کہ خالق کائنات نے دنیا کی جملہ مخلوقات کو ایک مکمل و مربوط نظم عطا کیاہے۔ ہر چیز اپنے مقررہ قواعد و ضوابط میں رہتے ہوئے ہی زندگی گزارنے کی پابند ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ ہر شئے کی تخلیق کا مقصد اور اس کی افادیت سے اسی وقت کامل طور پر بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے جب وہ شئے اپنے متعین اصولوں اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہو ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے سورج کے نظم و ضبط کو یوں بیان فرمایا :اور سورج اپنے مقرر رستے پر چلتا رہتا ہے۔یہ(خدائے)غالب اور دانا کا(مقرر کیا ہوا)اندازہ ہے۔ یعنی سورج کیلئے یہ متعین نظام ہے کہ وہ اپنے مقررہ مدار پر رہتے ہوئے ہی طلوع و غروب ہوتا ہے اور یہی اس کا ضبط ونظم ہے۔ بصورت دیگر جیسے ہی وہ اپنے مقررہ راستہ سے ہٹ کر مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا تو از روئے حدیث پاک نظام کائنات تغیر پذیر ہو جائے گا اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ اسی طرح ہم جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں اور اس کی صنعت میں غور کرتے ہیں تو صانع کائنات اس کے نظم و ضبط کو یوں بیان فرماتا ہے:وہ ذات جس نے تخلیق کیا سات آسمانوں کو طبق در طبق (اوپر تلے )۔کیاتو رحمان کی خلقت میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو(آسمان میں)کوئی شگاف نظر آتا ہے؟(سورۃ الملک:3)گویا آسمان کا طبق در طبق ہونا اس کے حسن انتظام اور نظم و ضبط کو واضح کرتا ہے ،مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے متصل یہ دعوی فرمایا کہ تجھے رحمان کی صنعت اور تخلیق میں کوئی تفاوت، نقص یا کمی بیشی نظر نہیں آئے گی۔ اب اگر زمین کی خلقت اور صنعت میں غور کیا جائے تو اللہ تعالی اس متعلق ارشاد فرماتے ہیں :اور ہم نے اس میں اونچے اونچے لنگر ڈالے اور ہم نے تم کو خوب میٹھا پانی پلایا(سورۃالمرسلٰت:27)یعنی زمین کو پہاڑوں کی میخوں پر کھڑا کیا اور ان کے نیچے سے پانی جاری کیا جس سے لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔ اگر پہاڑوں کی میخیں زمین سے ہٹا دی جائیں تو زمین ہلنے لگ جائے اور اس پر بسنے والی مخلوق اپنا سکون تو کیا اپنی جان تک گنوا بیٹھے اور نظم کائنات درہم برہم ہو جائے۔اس طرح کی کئی مثالیں قران کریم سے پیش کی جا سکتی ہیں جیسے ہوا، پانی، آگ وغیرہ یہ جب تک اپنی حدود میں چلتے اور بہتے ہیں تو سب کیلئے نفع بخش ہوتے ہیں مگر جب حد سے تجاوز کرتے ہیں تو آندھی، طوفان، سیلاب اور جلانے کے ساتھ ساتھ تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح اگر شہد کی مکھی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ دیکھنے میں تو چھوٹی ہے مگر سبق بہت بڑا دیتی ہے کیونکہ وہ ایک خاص نظم و ضبط کے تحت چلتی نظر آتی ہے کہ اللہ نے اس کو خاص راستوں سے آنے جانے، خاص مقامات پر اپنا گھر بنانے اور صاف پھلوں سے غذا حاصل کرنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام فرمایا کہ تو پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں اور چھتوں پر (سورۃالنحل:68)مزید فرمایا:اور ہر قسم کے پھل میں سے کھا۔اور اپنے رب کے صاف رستوں پر چلی جا کہ تیرے لئے نرم وآسان ہے۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے۔ اس میں لوگوں(کے کئی امراض) کی شفا ہے۔ بیشک اہل تفکر کے لیے اس میں بھی نشانی ہے(سورۃالنحل:68) پس ثابت ہوا کہ اگر شہد کی مکھی نظم و ضبط میں رہ کر خدا کے حکم کو تسلیم کرتی ہے تواس کے پیٹ سے نکلنے والا مادہ لوگوں کے لئے شفا ثابت ہوتا ہے ۔اگر شہد کی مکھی اپنے نظم حیات کو فراموش کردے تو اس کے بطن سے نکلنے والا رس شفا نہیں بلکہ وبا بن جائے۔ ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ جملہ مخلوقات کے نظام حیات کی بقا کیلئے ایک مخصوص نظم و ضبط مقرر کیا گیا ہے جس سے کسی بھی صورت دستبردار ہونے کا واحد نتیجہ نظام کائنات کی تباہی اور فساد ہے۔ اس لئے جس طرح زمین اور آسمان کی بقا کا ایک نظام متعین ہے تو اسی طرح زمین و آسمان کے مابین رہنے والے انسانوں کو سفر حیات گزار نے کیلئے بھی قرآن و سنت سے ایک خاص راستہ عطا کیا گیا ہے جس پر کار بند رہنے میں ہی انسانیت کا حسن اور نظام حیات کی بقا ہے بلکہ اسی میں انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح بھی پوشیدہ ہے۔ اسی نصاب اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہو کر انسان زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے ہر عضو کو سنوار کر اپنے تن کو ایک عظیم محل بنا سکتا ہے۔ اس شاندار محل کے دو اہم اور بنیادی مقامات پر قرآن کریم اور بالخصوص حدیث نبوی کے تاکیدی پہلوکو پیش کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ ایک کا تعلق بطن سے اور دوسرے کا لسان سے یعنی اکل حلال اور صدق مقال۔
سر دیں صدق مقال، اکل حلال
خلوت و جلوت تماشائے جمال
دین کا راز سچ بولنے اور حلال روزی میں ہے۔ خلوت ہو یا جلوت دونوں حالتوں میں حق تعالی کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔ یہاں پر ایک بنیادی بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اکل حلال کیلئے کسب حلال لازم ہے۔کسب حلال کو کئی نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے ،لیکن یہاں دو طریق کی وضاحت کی گئی ہے۔ معاشرتی اعتبار سے کسب حلال کے نتیجہ میں آدمی کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اگر اسے خالصتا ًدینی اور مذہبی نگاہ سے دیکھیں تو وہ مخلوق کے ساتھ ساتھ خالق کی نگاہ میں بھی محبوب ترین بندہ قرار پاتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ الکاسب حبیب اللہ،گویا وہ خالق و مخلوق کے ہاں محبوب بن جاتا ہے۔گوکہ پیٹ بھرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کمائی کی جاسکتی ہے مثلا جائز اور ناجائز۔ اگر انسان جائز طریقے سے کمائی کرکے کھائے تو اکل حلال اور ناجائز طریقے سے کماکر کھائے تو حرام۔ اس کی بے شمار مثالیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ حلال کمائی میں نوید اور حرام کمائی میں وعید۔ ایک مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص سے متعلق نوید سنائی جس نے مسلسل چالیس دن حلال کا لقمہ کھایا اور حرام سے خود کو محفوظ کیا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے چالیس دن تک رزق حلال کھایا اللہ تعالی اس کے قلب کو منور فرما دیگا اور حکمت کے چشموں کو اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری فرما دیگا۔ اس حدیث پاک میں تین بشارتیں دی گئی ہیں:(1)تنویر قلب، (2)چشمہ حکمت اور (3)قلب کے راستے طہارت لسانی یہ تو40 دن کے رزق حلال کی برکت ہے دائمی حلال کھانے کی برکات تو اندازے سے باہر ہوں گیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ!آپ اللہ تعالی سے میرے مستجاب الدعوات ہونے کا سوال فرمائیے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو اپنے کھانے کو پاک (حلال)کرلے تیری دعا قبول کی جائے گی۔
گویا دعائوں کی مستجابی کا نسخہ اکسیر اکل حلال ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:اللہ تعالی نے بیت المقدس پر ایک فرشتہ کو مامور فرمایا جو ہر رات یہ ندا لگاتا ہے کہ :جس نے حرام میں سے کھایا اس کا نہ کوئی نفل قبول کیا جائے گا نہ ہی کوئی فرض۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:جس نے بھی دس درہم کے عوض کوئی کپڑا خریدا اور اس کے مال میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک اس کپڑے کا کوئی حصہ اس انسان کے بدن پر ہوگا اللہ تعالی اس کی نماز کو کبھی قبول نہیں فرمائیگا۔ پہلی حدیث میں تو پورے لباس کا ذکر ہواہے اس حدیث میں اس سے بھی زیادہ وعید فرمائی گئی کہ اگردس درہم کے لباس میں ایک درہم بھی حرام شامل ہوا تو جب تک وہ لباس جسم پر موجود رہے گا نماز قبول نہیں ہو گی۔ اگر عمیق نظر سے احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو آدمی ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے کہ اعمال صالحہ کی قبولیت میں رزق حلال کا اتنا بڑا عمل دخل ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبادت کے کل دس اجزاء ہیں جن میں سے نو اجزا ء کا تعلق طلب حلال سے ہے۔ اگر رزق میں سود کی آمیزش ہو جائے تو اس پر سخت وعید فرمائی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:مال ِسود کا ایک درہم اللہ تعالی کے ہاں دین اسلا م میں 30مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت جرم ہے۔ قرآن و سنت کے عملی پیکر ہر دور میں نمایاں نظر آتے ہیں اور تاریخ کے اوراق کا وہ نمایاں ورق ہوتے ہیں جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
انہی ذوات قدسیہ میں خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بھی ہے جن کے تقوی کی شہادت اللہ پاک نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمائی:وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے تقوی اور پارسائی کو اختلافِ الفاظ کے ساتھ امام بخاری اور امام غزالی نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ: سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی کمائی سے دودھ نوش فرمایا۔ پھر اپنے غلام سے اس متعلق سوال کیا کہ یہ دودھ کس مال سے خریدا تو اس غلام نے کہا: میں نے ایک قوم کیلئے عمل کہانت (یعنی نجومیوں کا سا عمل)کیا تھا انہوں نے اس کے بدلہ مجھے جو مال دیا اس میں سے میں نے یہ دودھ خریدا تھا ؛سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی انگلی اپنے منہ میں ڈالی اور قے یعنی الٹی کردی حتیٰ کہ راوی فرماتے ہیں مجھے گمان ہوا کہ عنقریب آپ کی جان نکل جائے گی۔
صدق مقال: زبان ایک ایسی حقیقت ہے جسے نہ تو جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا انکار کیا جا سکتا ہے کیونکہ پورے وجود میں یہ ایک ایسا لطیف مقام ہے کہ جس کو غور و فکر کے بعد کبھی تمام اعضاء کے سردار قلب یعنی دل سے کبھی پہلے پاتے ہیں اور کبھی بعد۔ یعنی دل نے جس چیز کا مشاہدہ کیا زبان اس کا اقرار کرتی نظر آتی ہے اور پورے کا پورا دین اسی کے گرد گھومتا نظر آتا ہے،گویا اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کی عملی تفسیر کا یہاں نظارہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی مقام پہ زبان کو پھسلتا دیکھو تو جان لینا کہ ہلاکت کی سب سے بڑی وادی آپ کا مقدر بن چکی ہے۔ کیونکہ کفر و شرک کے کلمات بھی اسی زبان سے ادا ہوتے ہیں جو انسان کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اگر زبان اقرار کرے اور دل اس کی تصدیق کرے تو اسی اقرار کے نتیجے میں اکل حلال کی طرح صدق مقال بھی انسان کو محبوبِ خدا بنا دیتی ہے کیونکہ سب سے بڑا سچ زبان کے ذریعے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اقرار سے ادا کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشادنبوی ہے:تم کہو اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں فلاح پائو گے۔ گویا یہی کلمہ بندے کو خدا کی معرفت کے ساتھ ساتھ اس کی قربت کے گر بھی سکھا تا ہے اور اس کو محبوبِ خدا بھی بناتا ہے۔
حتی کہ بعض اوقات انسان اپنے کسی کلمے کو محض ایک معمولی جملہ سمجھتا ہے مگر اسے کیا خبر وہ اسے اس کی قربت کے باغات میں سے کس کیاری تک لے کر جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف کی روایت ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کردیتا ہے۔ جبکہ اسی طرح ایک دوسرا آدمی ایک ایسا کلمہ ادا کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ جہنم کی ایک ایسی وادی میں جا گرتا ہے کہ اسے اس کی خبر بھی نہیں ہوتی جو کہ اسی حدیث پاک کے دوسرے حصے میں مذکور ہے: اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔ اس کی تائید ایک اور حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا یا رسول اللہ!کیا ہماری گفتگو پر بھی مواخذہ کیاجائے گا؟ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اے ابن جبل! تیری ماں تجھ پر روئے (یہ بات بطور شفقت فرمائی )بے فائدہ اور فضول گفتگو ہی لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم امت کیلئے حفظ لسان میں اس قدر احتیاط فرما کر امت کو درس عطا فرمایا کہ زبان کی حفاظت ایسے کی جاتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ:حضرت عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!مجھے کسی ایسی چیز کا حکم فرمائیں جسے میں مضبوطی سے تھام لوں ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر استقامت اختیار کرو-میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!آپ مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز کا خوف رکھتے ہیں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ اس کا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندے کا ایمان اس وقت تک استقامت پر قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا قلب درست نہ ہوجائے اور اس کا قلب اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان استقامت اختیار نہ کرے اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی لغویات سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS