کیتھولک چرچ کے پادریوں کے کالے کارنامے،2 لاکھ 16 ہزار بچوں سے جنسی زیادتی

0

پیرس(ایجنسی): رپورٹ فرانس میں سامنے آنے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کے کیتھولک چرچ کے پادریوں نے سنہ 1950 سے اب تک تقریباً دو لاکھ سولہ ہزار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر لڑکے ہیں۔
اس تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والے پادریوں کی تعداد دو ہزار نو سو سے تین ہزار دو سو تک ہے۔ تحقیق کے سربراہ نے کہا ہے کہ ‘چرچ نے متاثرہ بچوں کے معاملے کو ظالمانہ طریقے سے نظر انداز کیا۔ویٹیکن کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ پوپ فرانسس کو اس انکوائری سے حاصل ہونے والی معلومات پر انتہائی دکھ ہے۔
زیادتی کا شکار ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ چرچ کو اپنے اعمال کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔
متاثرہ افراد کی تنظیم لا پیرول کے بانی فرانسوا ڈیوو کا کہنا ہے کہ بھروسے کو توڑا گیا، اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری گئیں اور بچوں سے دغا کی گئی۔ فرانسوا ڈیوو متاثرہ افراد کی تنظیم ‘لا پیرول’ کے بانی بھی ہیں۔تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اگر پادریوں کے علاوہ چرچ کے دوسرے اراکین مثلاً کیتھولک سکولوں کے اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کو بھی شامل کیا جائے تو متاثرہ بچوں کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار تک ہو سکتی ہے۔
فرانسوا ڈیوو کے لیے اس تحقیق کے نتائج فرانس کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہیں۔ آپ نے متاثرین کو ادارے کی سطح پر تسلیم کیا ہے جو بشپ حضرات اور پوپ ابھی تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ویٹیکن کی جانب سے بیان کے مطابق چند روز قبل فرانس کے پادریوں سے ملاقات کے بعد پوپ کو اس رپورٹ کے بارے میں معلوم ہوا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ انھیں سب سے پہلے تو متاثرین کا احساس اور ان کی تکلیف پر انتہائی افسوس ہے۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں کیتھولک چرچ کے اہلکاروں کے خلاف جنسی زیادتیوں کے بہت سے الزامات اور مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔
یہ تازہ رپورٹ فرانس کے کیتھولک چرچ کی جانب سے سنہ 2018 میں ایک غیر جانبدارانہ تحقیق کے فیصلے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ اس تحقیق میں ڈھائی برس سے زیادہ وقت لگا اور اس دوران عدالتوں، پولیس اور چرچ کے ریکارڈ کو کنگھالا گیا اور متاثرہ افراد اور شاہدین سے بات کی گئی۔
اس انکوائری میں جائزہ لیے جانے والے زیادہ تر کیس اتنے پرانے ہو چکے ہیں کہ فرانسیسی قانون کے مطابق مجرموں کو سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔
تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرین میں بڑی تعداد لڑکوں کی ہے جن میں سے اکثر کی عمریں 10 سے 13 سال تھیں۔ رپورٹ کے مطابق چرچ نہ صرف ان جنسی زیادتیوں کو روک نہیں سکا بلکہ انھیں رپورٹ کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ بچوں کو ایسے افراد کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا تھا جن کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔تحقیق کے سربراہ ژاں مارک سواوو نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ غفلت، خاموشی اور ادارے کی سطح پر معاملے کو چھپانے جیسی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ سنہ دو ہزار کی دھائی تک چرچ نے انتہائی گہرے، مکمل اور ظالمانہ طریقے سے متاثرین کو نظر انداز کیا۔’متاثرین پر اعتبار نہیں کیا گیا اور ان کی بات سنی نہیں گئی۔ کیتھولک چرچ کے اندر جنسی استحصال ایک مسئلے کے طور پر جاری رہا۔’
کمیشن کو ایک لاکھ پندرہ ہزار پادریوں میں سے کم از کم تین ہزار دو سو ایسے افراد کے خلاف شواہد ملے جو جنسی استحصال کرتے تھے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تعداد شاید اصل سے کم ہے۔
رپورٹ میں جن کیسوں کا احاطہ کیا گیا ہے ان میں سے چند ہی تادیبی کارروائی تک پہنچے ہیں جبکہ باقائدہ طور پر جرم کے مقدمے کی طرف تو بات گئی ہی نہیں ہے۔زیادہ تر کیس تو اتنے پرانے ہیں کہ فرانس کے قانون کے مطابق ان پر عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تاہم رپورٹ میں چرچ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی معاوضے سے متاثرین کی ذہنی اور جسمانی تکالیف کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن اس طرح اس معاملے کو تسلیم کرنے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ رپورٹ میں تجاویز کا ایک پورا سلسلہ موجود ہے کہ مستقبل میں کس طرح جنسی زیادتی اور استحصال کو روکا جا سکتا ہے۔ ان تجاویز میں پادریوں کی تربیت بھی شامل ہے۔
یہ سارا معاملہ ستر برس پرانا ہے اور آدھے سے زیادہ کیس سنہ 1970 سے پہلے کے ہیں۔ پھر بھی اکثر فرانسیسیوں کے لیے یہ چرچ کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر جنسی استحصال کے خلاف جاگنے کی گھڑی ہے۔ جو کبھی سنے سنائے معاملات تھے وہ اب اچانک معاشرے کے خدوخال متعین کر رہے ہیں۔اس رپورٹ کا بنیادی خلاصہ یہ ہے کہ ندامت اور پچھتاوے کا وقتی اظہار اب کافی نہیں ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پادریوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی چند افراد کا ذاتی فعل نہیں تھا بلکہ یہ منظم طریقے سے ادارے کی سطح پر کیا گیا۔ اس کا ذمہ دار چرچ ہے نا کہ بے راہ روی کا شکار چند افراد۔
چرچ سے منسلک کئی افراد ان انکشافات سے دھل کے رہ جائیں گے۔ کئی لوگ اسے احساس جرم اور ذہنی دباؤ کم کرنے کا ایک موقع سمجھ کر اس کا خیر مقدم کریں گے۔ لیکن جیسا کہ کانفرنس آف رلیجس آرڈر کی سربراہ سسٹر ویرونیک مارگرون کا کہنا ہے ‘اگر اس سے چرچ ہل کر رہ جائے گا تو چرچ کو ہلنے دیں۔’

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS