آزادی کے74برس بعد بھی ہندوستان میں وہ معاشرتی ماحول نہیں بن پایا ہے جس میں تمام شہریوں کو یکساں مواقع حاصل ہوں اور مساوات کے بنیادی حق کو تسلیم کیاجاسکے۔ پورا ملک آج بھی زبردست اور زیر دست کے دو الگ الگ خیموں میں بٹا ہوا ہے۔ملکی سیاست بھی زیر و زبر کے ان ہی دو منتہائوں کے درمیان گردش کرتی رہتی ہے جسے سیاسی پولرائزیشن کہتے ہیں۔یکساں مواقع، مساوات، بھائی چارہ، ہم آہنگی جیسے خوش کن نعرے دینے والی سیاسی جماعتیں بھی اس پولرائزیشن کو ختم کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ کسی جماعت کا مقصد مذہب کی بنیادپرپولرائزیشن ہوتا ہے تو بعض جماعتیں ذات اور برادری کے گرد یہ پولرائزیشن کرتی ہیں۔اس کے باوجود فلاح و بہبود اور قومی وسائل پر ’ زبردست‘ طبقہ قابض ہوجاتا ہے اور سماج کا ’زیر دست‘ سمجھے جانے والے بہت بڑے طبقہ کی قسمت میں فلاح و ترقی اور سماجی انصاف کے ثمرات سے محرومی ہی آتی ہے۔جمہوریت اور سماجی انصاف کا تقاضا ہے کہ اس طبقہ کی محرومی اور پسماندگی دور کرنے کیلئے خصوصی ترقیاتی پالیسی بنائی جائے، ان کی فلاح و بہبود کیلئے اسکیمیں مرتب کی جائیں اور انہیں ملک و قوم کی ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔یہ پالیسی اور اسکیمیں اسی وقت بن سکتی ہیں جب زیر دست اور زبردست دونوں طبقوں کی انفرادی آبادی کا ڈاٹا سامنے ہواوراس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جائے۔ ہندوستان کی معاشرتی ساخت کا بھی یہی تقاضاہے کہ مردم شماری ذات اور برادری کی بنیاد پر ہو تاکہ ریزرویشن میں شفافیت لائے جانے کے ساتھ ساتھ کریمی و نان کریمی لیئر کی صحیح تعداد معلوم ہو۔ نیز ذات وبرادری کے نام پر ہونے والے سماجی استحصال کا سد باب کرکے زیر دست اور زبردست طبقہ کے مابین توازن لایاجائے۔ اسی ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائے جانے کیلئے بہار کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ایک وفد نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے۔ ہر چند کہ اس مطالبہ پر کوئی فوری فیصلہ سامنے نہیں آیاہے تاہم یہ سمجھاجارہاہے کہ حکومت بھی اس مسئلہ پر سنجیدہ ہے۔
وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے وفد میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار(جنتا دل یونائیٹڈ)، قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو (راشٹریہ جنتا دل) سمیت بہار کی 10 جماعتوں کے 11 رہنما شامل تھے اور یہ سبھی حکومت کی جانب سے مثبت فیصلہ کی امید لگائے ہوئے ہیں۔وزیراعظم سے ملاقات کے بعد خود نتیش کمار نے بھی کہا کہ وزیراعظم نے وفد کے مطالبہ کو مسترد نہیں کیا بلکہ غور سے ان کی باتیں اور دلائل سنے جس سے ان کی امید بندھی ہے۔
مسئلہ کی سنگینی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس پر مکمل غور وخوض کیا جائے اور اس کے ثمرات اور مضمرات کا اندازہ لگائے بغیر کوئی قدم نہ اٹھایاجائے۔یہ مسئلہ صرف بہار کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ لہٰذاحکومت سے یہ توقع بھی ہے کہ وہ ملکی مفاد میں فیصلہ کرے گی تاکہ ملک کے تمام طبقات کو ترقی کے مرکزی دھارے میںشامل کیاجاسکے۔
2011میں یو پی اے-IIکی حکومت میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی گئی تھی لیکن 2014میں جب یہ رپور ٹ آئی تو اس وقت مرکز میں این ڈی اے کی حکومت بن چکی تھی اور یہ رپورٹ منسوخ کردی گئی۔کہا یہ گیا تھاکہ اس مردم شماری میں ذات سے متعلق بڑی تعداد میں غلط اعداد و شمار پائے گئے ہیں۔ پھر یہ معاملہ سرد خانہ کی نذر ہوگیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلی مردم شماری کیلئے مرکزی حکومت بہار کی سیاسی جماعتوں کے اس مطالبہ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔ اگر مرکز نے یہ مطالبہ نہیں مانا تو ہوسکتا ہے کہ بہار کی سیاست میں کوئی نئی مساوات سامنے آجائے اور بی جے پی کی حکومت کو خطرہ پیدا ہوجائے ویسے بھی نتیش کمار اور تیجسوی پرساد یادو کی بڑھتی ہوئی قربت بی جے پی کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ ہندوستان کی معاشرتی ساخت میں ذات کو کسی بھی حا ل میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔کئی ایسی سیاسی جماعتیں اور لیڈرہیں جو کسی خاص ذات کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اگر ذات کی بنیاد پر ہونے والی مردم شماری کی شفاف رپورٹ آتی ہے تو اس سے نہ صرف ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ حکمراں بی جے پی سمیت کئی دوسری پارٹیوںکو بھی سیاسی خسارہ کاسامنا کرنا پڑے گا۔لیکن باوجود اس کے یہ ضروری ہے کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری ہو تاکہ اس ذات میں شامل افراد کی صحیح تعداد معلوم ہو اور ترقیاتی منصوبے و پالیسی بھی اسی بنیاد پر بنائی جائیں، اس کے ساتھ ہی ریزرویشن کو شفاف بنایا جاسکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جعلی ذات کے اعداد و شمار پر مبنی سیاسی پولرائزیشن کو بھی روکا جاسکے۔
[email protected]
ذات کی بنیاد پر مردم شماری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS