کیا افغانستان کی جیلوں سے آزاد ہونے والے شدت پسند پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟

0
Image:arkansasonline.com

افغانستان میں طالبان کی جانب سے صوبائی دارالحکومتوں اور کابل پر قبضے کے دوران کئی جیلوں سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کروایا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق رہا کروائے گئے قیدیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے کارکن بھی شامل ہیں۔ ان جیلوں سے رہائی پانے والوں میں تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی تعداد 780 تک بتائی جا رہی ہے لیکن افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اِس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق نائب امیر مولوی فقیر محمد کی تصویر بھی وائرل ہوئی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے وہ ان کی کابل میں ساتھیوں سمیت رہائی کے بعد لی گئی ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان کی جیلوں سے رہا ہونے والوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر بیت اللہ محسود کے ڈرائیور اور کمانڈر زلی محسود کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جو اگرچہ بظاہر غیر معروف ہیں لیکن ان کی اپنی تنظیم میں اہمیت رہی ہے۔
UN report: Widespread torture of detainees in Afghan prisons - ABC News

افغان صحافیوں کے مطابق اُن میں زرقاوی محسود، وقاص، حمزہ، زیت اللہ، قاری حمیداللہ، حمید اور مظہر محسود وغیرہ شامل ہیں۔سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی تصاویر وائرل ہونے اور قیدیوں کی رہائی کی اطلاعات کے بعد پاکستان میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہا ہونے والے یہ کارکن اور عہدیداران پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟ کیا جیلوں سے آزاد ہونے والے شدت پسند پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں؟

خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے سکیورٹی کے بارے میں ایک اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں خیبر پختونخوا اور خاص طور پر پاکستان، افغانستان سرحد کے قریبی علاقوں میں سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس اجلاس میں ان علاقوں میں مزید نفری تعینات کرنے کا فیصلہ جب کہ پولیس اور انٹیلیجینس اداروں کے درمیان روابط پر زور دیا گیا۔ کامران بنگش سے جب پوچھا گیا کہ ان شدت پسندوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے کیا امکانات ہیں تو انھوں نے کہا کہ تمام ادارے الرٹ ہیں اور سرحد پر داخلی اور خارجی راستوں پر اہلکار کڑی نگرانی کر رہے ہیں جب کہ وہ خفیہ راستے جہاں سے ان لوگوں کا آنا ممکن ہو سکتا ہے وہاں بھی اہلکار تعینات ہیں۔

افغان امور کے ماہر تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کے مطابق اقوام متحدہ اور امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں کالعدم تنظیموں کے پانچ سے چھ ہزار اہلکار موجود ہیں اور ماضی میں پاکستان میں ہونے والی بڑی کاروائیوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوتی تھی۔ عقیل یوسفزئی نے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ موجودہ حالات میں ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان میں کوئی کارروائی کریں گے یا پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کے عہدیداران یا کارکن اس موقع پر افغان طالبان کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS