کیا مرکزی اور ریاستی حکومتیں دونوں قانون بنا سکتی ہیں؟

یکساں سول کوڈ

0
کیا مرکزی اور ریاستی حکومتیں دونوں قانون بنا سکتی ہیں؟

خواجہ عبدالمنتقم

اس وقت قانونی حلقوں میںیہ امر موضوع بحث ہے کہ کیاآئینی التزامات کی رو سے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں دونوں ہی یکساں سول کوڈ کی بابت قانون بناسکتی ہیں؟اس ضمن میں ماہرین کی مختلف النوع آرا ہمارے سامنے ہیں۔جیسا کہ آئین کی دفعہ 246(2) میںالتزام کیا گیا ہے بادی النظر میںچونکہ عائلی قوانین آئین کی متوازی فہرست( concurrent list )میں شامل ہیں اور اس فہرست میں شامل ہونے کا مطلب صاف ہے کہ اس میں شامل کسی بھی موضوع پر مرکز اور ریاستیں دونوں ہی قانون بنا سکتی ہیں،لیکن کسی بھی ریاستی قانون ساز ادارے کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ پورے ملک کے لیے کوئی قانون بنا سکے۔
جب یہ قانون آئین کی دفعہ44 میں شامل مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول ،جس میں یہ توضیع کی گئی ہے کہ مملکت یہ کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو، کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وضع کیا جا رہا ہے تو یہ قرین مصلحت نہیں کہ ہر ر یاست اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دیوار الگ بنائے۔عائلی قوانین کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر طاہر محمود نے اپنی ایک پریس ریلیز میںجس گرانقدر رائے کا اظہار کیا ہے، اس پر مرکزی و ریاستی ارباب حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جس کا اطلاق پورے ملک میں ہوتو اسے صرف پارلیمنٹ ہی وضع کر سکتی ہے۔ان کی یہ رائے قانونی اور عملی نقطۂ نظر سے یقینی طور پر قابل قدر ہے مگر اس سلسلہ میں وزارت قانون اور دیگر قانونی اداروں سے وابستہ افراد کی رائے الگ ہوسکتی ہے۔
ماہر دستوریات اورلوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل پی ڈی ٹی اچاری کا کہنا ہے کہ چونکہ عائلی قوانین آئین کی متوازی فہرست میں شامل ہیں، اس لیے اس موضوع پر مرکز اور ریاستیں دونوں ہی قانو ن بنا سکتی ہیں۔اس کے برعکس سابق لا سکریٹری پی کے ملہوترا کا کہنا ہے کہ صرف پارلیمنٹ ہی ایسا قانون بناسکتی ہے۔ ہم بھی وزارت قانون میں سابق ایڈیشنل لیجسلیٹو کاؤنسل اور کئی یونیورسٹیوں اور اداروں میںانسانی حقوق اور لیجسلیٹو ڈرافٹنگ کے استاد رہنے کے سبب قانون کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر ایسا قانون بنانا ارباب حکومت کی مجبوری بن ہی گیا ہے تو بہتر یہی ہو گا کہ مرکزی حکومت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لے تاکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کے قانونی اور عملی پہلوؤں پر بھر پور بحث ہوسکے، بعد از بحث مجوزہ قانون میںاگر ترامیم کرنے کی ضرورت پڑے تو اس میں ترمیم یا ترامیم کی جا سکیں اور متعلقہ بل کو ضرورت محسوس ہونے پر سلیکٹ کمیٹی کو بھی سونپا جا سکے تا کہ سب کو یہ اطمینان ہوجائے کہ یہ سب کچھ نیک نیتی سے کیا جا رہا ہے نہ کہ کسی کی دل آزاری کے لیے۔
اگر ریاستی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں نفاذ کے لیے الگ الگ قانون بنانے لگیں اور اس کے ساتھ مرکزی حکومت نے اپنا مرکزی قانون وضع کر کے نافذ کر دیا تو اس بات کا پورا پورا امکان ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون اور ریاست کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے قوانین میں تناقض پیدا ہوجائے تو ایسی صورت میں آئین کی دفعہ 254 کے سبب ریاستی قانون تناقض کی حد تک خارج از اختیار (ultra-vires) ہوجائے گا،جیسا کہ اس کی درج ذیل عبارت سے صاف ظاہر ہے:
’’.254پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین اور ریاست کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے قوانین میں تناقض(repugnancy)۔(1) اگر ریاست کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے قانون کی کوئی توضیع پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی ایسے قانون کی جس کے بنانے کی پارلیمنٹ مجاز ہے یا متوازی فہرست میں تعین کیے ہوئے امور میں سے کسی امر کے متعلق کسی موجودہ قانون کی توضیع کے نقیض ہو تو فقرہ(2) کی توضیعات کے تابع پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون چاہے وہ ایسی ریاست کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے قانون سے پہلے یا بعد میں منظور ہوا ہو یا جیسی کہ صورت ہو موجودہ قانون حاوی رہے گا اور ریاست کی مجلس قانون ساز کا بنایا ہوا قانون نقض کی حد تک باطل ہوگا۔
(2) جب متوازی فہرست میں مندرجہ امور میں سے کسی امر کے متعلق کسی ریاست کی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے قانون میںکوئی ایسی توضیع ہو جو اس ا مر کی بابت اس سے پیشتر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون یا کسی موجودہ قانون کی کسی توضیع کے نقیض ہو تو ایسی ریاست کی مجلس قانون ساز کا اس طرح بنایا ہوا قانون جو صدر کے غور کے لیے محفوظ رکھا گیا ہو اور اس نے اس کی منظوری دے دی ہو تو اس ریاست میں حاوی رہے گا۔
بشرطیکہ اس فقرہ کا کوئی امر پارلیمنٹ کو کسی بھی وقت اس امر کے متعلق کسی ایسے قانون کے وضع کرنے میں جس میں ایسا قانون شامل ہے جس سے ریاست کی مجلس قانون ساز کے اس طرح بنائے ہوئے قانون میں اضافہ، ترمیم، تبدیلی یا اس کی تنسیخ ہوتی ہے مانع نہ ہوگا۔ ‘‘
اگر ریاستیں ماضی میں بنائے گئے اس طرح کے چند قوانین کو بنیاد بنا کر الگ الگ قوانین بنائیں گی تو اس سے مقدمہ بازی کا ایک طو یل و غیر ضروری سلسلہ شروع ہوجائے گا۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ ریاستوں کو یہ قانون بنانے کی جلدی کیوں ہے۔ ابھی تو اس کے بارے میں لا کمیشن نے بھی اپنی تحقیقی و تجزیاتی کارروائی مکمل نہیں کی ہے اور ہو بھی کہاں سے ؟دو سال سے کمیشن اپنے سربراہ سے محروم ہے اور کنسلٹیشن پیپر پر بھی لوگوں نے اپنی آرا دینے کے معاملے میں کما حقہ پیش رفت نہیں کی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انتہائی بخل سے کام لیا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ویسے بھی سپریم کورٹ کتنے ہی معاملوں میںبشمول پنالال بنسی لال بنام ریاست آندھراپردیش(1996)جے ایس سی سی498)والا معاملہ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کسی قانون کے سب پر اطلاق سے متعلق فیصلہ ایک دم نہیں کیا جاناچاہیے۔ یہ کام بہت دھیرے دھیرے کیا جاناچاہیے اور صرف تبھی کیا جاناچاہیے جب اس کی ضرورت نہایت شدید ہواور اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں اور ملک کا اتحاد وسالمیت قائم رہے۔ دریں صورت یکساں سول کوڈ کے نفاذمیں عجلت چہ معنی دارد۔ ابھی تو مجوزہ قانون کا ڈرافٹ بھی تیار نہیں ہوا ہے۔اس سلسلہ میں تمام stake holders سے مشورہ لینے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد کوئی ایسا معقول ڈرافٹ تیار کیا جا سکتا ہے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔اس کے لیے سب کو اعتدال پسندی اورنیک نیتی سے کام لینا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب واضعین قانون اور ملک کے شہریوں کی سوچ غیر جانبدارانہ اورمعروضی ہو اور ارباب حکومت و متعلقین کی سچائی کی تہہ تک پہنچنے کی پر تجسس نیت ہو۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS