گجرات انتخابات پر کیبل برج حادثہ کا سایہ

0

ِعلیزے نجف
گزشتہ دنوں ریاست گجرات کے موربی میں اتوار کی شب مچھو ندی پر بنا کیبل برج اچانک ٹوٹ کر گیا، جس کے سبب سینکڑوں افراد ندی کے پانی میں جا گرے۔ اس حادثہ میں تاحال 150 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور 100 سے زائد لوگ زخمی ہیں ہلاک شدگان میں بچے بھی ایک بڑی تعداد میں شامل ہیں حادثہ کے وقت پل پر تقریباً 500 لوگ موجود تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ موربی شہر میں پل گرنے کے واقعے میں جتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے اور ان میں سے بعض بچوں کی عمر تو دو برس تھی یہ سبھی لوگ چھٹی منانے کے لئے برج پر گھومنے کے لئے آئے تھے۔
تبصرہ نگاروں کی رائے کے مطابق اس نوعیت کا یہ پہلا حادثہ ہے جس میں اتنی کثیر تعداد میں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
موربی میں گرنے والا کیبل پل تقریباً ایک صدی پرانا تھا۔ (کیبل برج) تقریباً 150 سال قبل موربی خاندان کے حکمران سر واگھاجی ٹھاکر نے بنوایا تھا، جس کی لمبائی 233 میٹر تھی اور اس کی چوڑائی 1.25 میٹر تھی۔
اس برس مارچ کے مہینے میں پل کو مرمت کے لیے بند کیا گیا تھا۔ سنہ 2008 سے پل کی مرمت، اس کو چلانے اور اس کی دیکھ بھال کا کانٹریکٹ اوریوا گروپ کے پاس تھا۔
اس پل کو چار دن بعد 26 اکتوبر یعنی گجراتی نئے سال کے موقع پر عوام کے لیے دوبارہ کھولا گیا تھا۔ محض چار دن بعد یہ کیبل برج حادثے کا شکار ہو گیا۔
یہ حادثہ کیوں پیش آیا اس کے پیچھے کئی وجوہات نظر آتی ہیں تفتیشی افسر اور موربی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پی اے جالا نے یکم نومبر کو عدالت کو بتایا کہ معلق پل کی تاروں کو زنگ لگا ہوا ہے اور اگر ان کی مرمت کر دی جاتی تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ نیوز پورٹل اے بی پی پر شائع خبر کے مطابق اوریوا کمپنی کو اس کی مرمت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کے منیجر دیپک پاریکھ، جو پل کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں جو گرفتار کیے گئے نو افراد میں سے ایک ہیں، انہوں نے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سینئر سول جج ایم جے خان کو بتایا کہ یہ خدا کی مرضی تھی کہ ایسا ناخوشگوار حادثہ پیش آیا۔دیپک پاریکھ کا یہ بے بنیاد جواز ان کی لاپروائی اور بے حسی کی علامت ہے وہ اپنی ذمہ داری قبول کرنے اور حادثے کا شکار لوگوں کی موت پہ نادم ہونے کے بجائے خدا کی مرضی کہہ کر خود کو بری الزمہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ انسانی غلطی کا نتیجہ ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اوریوا کمپنی نے ایسے کانٹریکٹرز سے کام کروایا جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور انہوں نے جو مرمت کی ان کا معیار صحیح نہیں تھا۔ جس کی جانچ کے لئے کمیٹی تشکیل کی جا چکی ہے
حادثے کے ایک روز قبل اوریوا کمپنی کے مالک جے شک بھائی پٹیل نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بتایا تھا کہ پل کی مرمت میں دو لاکھ بیالیس ہزار ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پل کی مرمت اتنی بہترین ہوئی ہے کہ ’آئندہ آٹھ، دس برسوں میں پل کو کچھ نہیں ہوگا۔ اور اگر پل کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا گیا تو آئندہ 15 برس تک کسی بھی طرح کی مرمت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔‘ اوریوا کمپنی کا دعویٰ پندرہ سال کیا اگلے پندرہ دن بھی پورے نہیں کر سکا چار دن بعد ہی اس کی شکستہ حالی سب پہ عیاں ہوگئی اتنی بڑی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی اس برج کی شکستہ حالی کو ختم نہیں کیا جا سکا
اس حادثے کے بعد پولیس نے اب تک اوریوا کمپنی سے منسلک 9 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں دو منیجر، دو ٹکٹ بنانے والے کلرکس، دو کانٹریکٹر، اور تین سیکورٹی گارڈز شامل ہیں۔
گجرات میں موربی پل حادثے کے بعد اب اس کی وجوہات اور کوتاہی کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں جو بات سامنے آرہی ہے اس میں سنگین غفلت ہے۔ اس کی مرمت کے دوران کئی ایسی کوتاہی برتی گئی جس سے اگر بچا جاتا تو شاید یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی وہ ایسے کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے ورنہ وہ اس کی مرمت میں اس حد تک لاپرواہی نہیں برتتے۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق اس 150 سال پرانے پل کی مرمت کے لیے ناقص میٹریل استعمال کیا گیا۔ اس سے پورا ڈھانچہ خطرناک ہو گیا۔ مرمت کے کام کی کوئی دستاویز نہیں تھی اور نہ ہی ماہرین کے ذریعہ اس کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تھا۔
کمپنی کے پاس مرمت کا کام مکمل کرنے کے لیے دسمبر تک کا وقت تھا، لیکن انہوں نے دیوالی اور گجراتی نئے سال کے تہواروں کے موسم میں بہت زیادہ ہجوم کی توقع کرتے ہوئے پل کو وقت سے پہلے کھول دیا۔ مقامی میونسپل چیف سندیپ سن زالہ کا کہنا ہے کہ اوریوا کمپنی کو پل کو دوبارہ کھولنے سے پہلے حفاظتی سرٹیفیکیٹ نہیں دیا گیا تھا۔ کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے پل کی قوت برداشت سے زیادہ لوگوں کو پل پر جانے کے ٹکٹ دیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پل پر حادثے کی رات تقریباً 500 افراد موجود تھے جبکہ پل پر ایک وقت میں صرف 100 سے 150 افراد کھڑے ہوسکتے تھے۔
پل پر کئی کیبلز کو زنگ لگ گیا تھا۔ پل کا وہ حصہ جہاں سے ٹوٹا ہے وہ بھی زنگ آلود پایا گیا۔ اگر زنگ آلود تاروں کو تبدیل کر دیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ مرمت کے نام پر صرف کھمبے کو تبدیل کیا گیا، کیبل کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس میں ڈالے گئے مواد کی وجہ سے اس کا وزن مزید بڑھ گیا۔ پل کی مرمت کے نام پر صرف پینٹ کیا گیا۔ مرمت کے کام کے لیے رکھے گئے لوگ ایسے کام کے اہل نہیں تھے۔ انہوں نے مرمت کرنے کے بجائے کیبلز کو پینٹ اور پالش کر دیا۔ نااہل قرار پانے والی اس فرم کو 2007 میں بھی ایسا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔
اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بات بڑی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس حادثے کی سب سے بڑی وجہ لاپروائی بدعنوانی اور بے حسی ہے۔ اس کی ذمہ داری کس کے اوپر عائد ہوتی ہے اس کا جواب بالکل واضح ہے گجرات میں بی جے پی کی حکومت ہے پچھلے 27 سالوں سے گجرات پہ انھیں کا قبضہ ہے۔ اور پندرہ سال تک خود نریندر مودی اس کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ایسے میں وہ اس حادثے کا ٹھیکرا کسی دوسرے کے سر نہیں پھوڑ سکتے۔ 2016 میں ممتا بنر جی کے بنگال کی وویکا نند روڈ کا فلائی اوور بریج گر گیا تھا جس پہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دیدی کی حکومت اسے ایکٹ آف گاڈ کہے گی مگر یہ ایکٹ آف گاڈ نہیں ایکٹ آف فراڈ ہے اب موربی میں کیبل برج کا حادثہ جس نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے اس کے حوالے سے برسر اقتدار طبقہ میں خاموشی نظر آ رہی ہے کیونکہ اب یہ لوگ اسے ایکٹ آف گاڈ بھی نہیں کہہ سکتے اور اس پل کے انہدام نے گجرات میں وکاس اور وکاس کے نام پہ مختص کئے جانے والے بجٹ کی حقیقت بھی عیاں کر دی ہے۔
گجرات کو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا گڑھ کہا جاتاہے ایک طرف موربی کیبل برج کا جانکاہ حادثہ ہے دوسری طرف گجرات اسمبلی الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا گیا ہے جو کہ چوطرفہ تنقید کے بعد تین ہفتوں کی تاخیر سے کیا گیا ہے۔ اس تاخیر کے پیچھے یہ وجہ بتائی جا رہی ہے کہ بی جے پی اس دوران عوام کو لبھانے اور پارٹی کی طرف مائل کرنے کے لئے کچھ اعلانات کرنے کے مواقع حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔ گجرات میں اپنی ہار کے امکانات کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی نے الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی کئی نئے پروجیکٹس کی بنیاد رکھی تاکہ عوام کی ناراضگی کو ختم کر کے انھیں اپنی طرف مائل کیا جاسکے اس کے لئے وہ گجرات کا دورے پہ دورہ کئے جا رہے ہیں اور امت شاہ نے تو وہیں پہ بسیرا کر لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب موربی کیبل برج کا حادثہ پیش آیا تو اس وقت نریندر مودی گجرات کے ہی تین روزہ دورے پہ تھے گجرات میں ہوتے ہوئے بھی وہ جائے حادثہ پہ دو دن بعد پہنچے۔ دوسری طرف گجرات کے عوام میں بدلاؤ کا رجحان بڑی شدومد کے ساتھ پایا جارہا ہے جس کا بی جے پی رہنما نے دبے الفاظ میں اعتراف بھی کیاہے ’’اس مرتبہ گجرات میں بی جے پی کے لئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ بی جے پی کو شاید محسوس ہوگیا ہے کہ ان کی لفاظی اور زبانی جمع خرچ زیادہ دنوں تک اس کا ساتھ نہیں دے سکتی ہے۔
گجرات میں گزشتہ 27 سالوں سے برسراقتدار بی جے پی پارٹی ہر طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ گجرات کی ترقی کا زبانی دعویٰ زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے میں یہ حادثہ انتخابی نتائج کو ضرور متاثر کرے گا۔ تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق اس بار بی جے پی کا گجرات اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا اور گجرات میں ان کی کامیابی و ناکامی پارلیمانی انتخاب کو بھی ضرور متاثر کرے گی 182 رکنی گجرات اسمبلی الیکشن میں حزب اقتدار بی جے پی اور حزب اختلاف کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی کی موجودگی سے مقابلہ کے سہ رخی ہونے کا امکان نظر آرہاہے ایسے میں بی جے پی کے سامنے کئی طرح کی مشکلیں ہیں جس کو سر کرنا اس کے لئے بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS