سی اے اے ، این آرسی:ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے

0

نئی دہلی (ایجنسیاں):شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے خلاف آسام اور گوہاٹی سے شروع احتجاجی مظاہرے بھی جاری رہے۔ملک کے کونے کونے سے احتجاج اور مظاہروں کی خبریں موصول ہورہی ہےں۔ ملک کی راجدھانی دہلی سمیت راجستھان، آسام، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مہاراشٹر اور حیدرآباد سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لوگوں کا احتجاج دیکھنے کو ملا۔آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ دہلی یونیورسٹی میں ملک کے نامور فنکاروں نے احتجاج کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی یکجہتی کے طورپر احتجاج کے دوران طلبا نے ’کرسمس ڈے‘منایا، جس میں مختلف مذاہب کے رہنمائو نے حصہ لیا۔ ادھر شاہین باغ-جسولاوہار روڈ پر احتجاجی مظاہرہ ہوا، جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
دہلی یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران اروندھتی رائے نے کہا کہ حکومت ا ین آرسی اور ڈٹےشن کیمپ کے معاملے پر جھوٹ بول رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس موضوع پر ملک کے سامنے غلط حقائق پیش کئے ہیں۔ جب کالجوں میں پڑھنے والے طلبا، حکومت کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے ہیں تو ان طلبا کو اربن نکسل کہہ دیا جاتا ہے۔اروندھتی رائے نے طلبا سے کہا کہ'این پی آر بھی این آرسی کا ہی حصہ ہے۔
 این پی آر کےلئے جب سرکاری ملازم تفصیلات مانگنے آپ کے گھر آئیں تو انہیں اپنا نام ’رنگابلا-پتہ ریس کورس بتائیں۔ اپنے گھر کا پتہ دینے کے بجائے وزیر اعظم کے گھر کا پتہ لکھوائیں‘۔ اروندھتی رائے نے انتہائی تلخ انداز میں حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ نارتھ ایسٹ میں جب سیلاب آتا ہے تو ماں اپنے بچوں کو بچانے سے پہلے اپنے شہریت کے ساتھ دستاویزات بچاتی ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر کاغذ سیلاب میں بہہ گئے تو پھر اس کا بھی یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے طلبا بھی دھرنا اور مظاہرہ کررہے ہےں۔ دہلی یونیورسٹی کے آرٹ فیکلٹی کے گیٹ پر بدھ کو طلبا اور ٹیچروںکا ایک ڈٹےنشن سےنٹر بنادیاگیاہے۔اس کے چاروں طرف بیریکیٹنگ کردی گئی ہے۔ اس دوران مودی، دہلی پولیس کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
اس کے علاوہ مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ کمل ناتھ کی قیادت میں آئین بچائو مارچ کا اہتمام کیاگیا۔ کانگریس نے کہا کہ ملک کو توڑنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ قانون آئین پر حملہ یہ نہیں ملک کے ہر شہری پر حملہ ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی کے اندر ہی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بے چینی بڑھنے لگی ہے۔ بی جے پی دہلی یونٹ کی نائب صدر شاذیہ علمی نے پارٹی پر بھیدبھائو کا الزام لگایا ہے۔انہیں وزیراعظم کی ریلی کے دوران اسٹیج پر جانے سے روکا گیا، جس کے باعث انہیں میڈیا اہلکاروں کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ 
ادھر لکھنئو میں واقع خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی انتظامیہ نے مظاہرے کے دوران فیس بک پر شیئر کرنے کی پاداش میں ایک طالب علم کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ بتایا گیا ہے کہ تاریخ سال سوم کے طالب علم احمد رضا خان نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیمپس میں فیس بک پوسٹ کے ذریعہ طلبا کو مدعو کیاتھا۔یونیورسٹی کے پراکٹوریل بورڈ نے احمد رضا کو قصوروار مانتے ہوئے یونیورسٹی سے نکال دیا۔اس پوسٹ میں لکھا تھا کہ اس غیرقانونی ایکٹ کے خلاف کھڑے ہونے میں ہمارا ساتھ دیجئے اور غلط کو غلط کہنے کے جذبے کو قائم کےجئے۔
 دریں اثنا ملک بھر میں شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران پولیس کے ذریعے صحافیوں کو نشانہ بنانے اور ان پر حملے کے خلاف ممبئی پریس کلب کے تحت صحافیوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ لکھنئو میں ہندو اخبار کے صحافی کو پولیس نے کئی گھنٹے تک حراست میں رکھا اور اسے فرقہ وارانہ انداز میں باتیں کی گئیں۔ منگلور میں بھی 7صحافیوں پر حملے کئے گئے، جبکہ دہلی اور اترپردیش میں انہیں نشانہ بنایاگیا۔
ادھرمغربی بنگال کی جادو پور یونیورسٹی کی کنووکےشن تقریب میں ایک طالبہ نے ڈگری لینے کے بعد شہریت ترمیمی قانون کی کاپی پھاڑ دی۔ طالبہ دیبواسمتا چودھری نے کہاکہ یہ میری مخالفت کرنے کا طریقہ ہے۔ میںنے ایسا اس لیے کیا کہ شہریت ترمیمی قانون ملک کے سچے شہری کو اپنی شہریت ثابت کرنے کےلئے مجبور کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS