زبان کو فروغ دینے کے لئے ہمیں نئی نسل کو اردو کے قریب لانا

0
Daily Times

حیدرآباد: ( یو این آئی ) اردو ایک قیمتی اثاثہ اور ایک میٹھی مہذب زبان ہے جو دلوں پر راج کرتی ہے۔ یہ ایک ثقافتی اور تاریخی زبان ہے۔ زبان کو فروغ دینے کے لئے ہمیں نئی نسل کو اردو کے قریب لانا ہوگا اور اردو زبان میں سائنس کی کتابیں شائع کرنی ہوں گی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسرعبد الحق،سابق صدر،شعبہ کیمسٹری،عثمانیہ کالج ،کرنول نے کل شام مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں 5 ویں قومی اردو سائنس کانگریس 2021 کے اختتامی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ اعزازی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود ،رجسٹرار انچارج نے صدارت کی۔ اسکول برائے سائنسی علوم کے زیر اہتمام ”بین علومی سائنسی تحقیق پر ٹکنالوجی کے اثرات“ کے موضوع پر قومی اردو سائنس کانگریس کا انعقاد عمل میں آیا۔
پروفیسر حق نے ایک ہفتہ وار میں شائع دینی مدارس کے طالب علم کے متعلق مضمون کا حوالہ دیتے کہا کہ اس طالب علم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ بنگلور جیسے باوقار اداروں میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور کیلیفورنیا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ کی فیلوشپ بھی اُسے ملی۔ اس مثال کے ذریعہ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اردو رکاوٹ نہیں ہے۔
نامور سائنسدان نیوٹن اور کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ پروفیسر ایس آر رامداس کے چند واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ اساتذہ اور سائنسدان نئی چیزیں سیکھتے رہتے ہیں اور اکثر سادگی پسند ہوتے ہیں۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود نے کانگریس کے منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کے مقالوں پر مشتمل ایک آن لائن جریدہ شائع کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے انسانی ترقی کے متعلق کہا تحقیق،مشاہدہ اور اختراع پر مشتمل سائنسی معلومات اس سلسلے میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔
کثیر اور بین علومی رویے کے بارے میں پروفیسر صدیقی نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے ان طریقوں کو اپنانا بہت آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ طلباء اور ریسرچ اسکالرز بین علومی تحقیق کو یقینی بنانے اور نمایاں کام انجام دینے کے لئے ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کریں گے جس سے غیر معمولی نتائج حاصل ہوں گے۔
پروفیسرسید نجم الحسن،ریاضی اور کنوینر نے کانگریس کی تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ محمودہ بیگم (طبی سائنس) ،طلعت پروین (طبیعیات)، عامرہ صبا (ماحولیاتی سائنس) ، ملیحہ تصدیق ملک (زراعت) ، سمرین کوثر (کیمیا) ، محمد آصف پیدار (ریاضی) کو بہترین پیشکش کے لیے انعامات دیئے گئے۔ جبکہ بہترین مکمل مقالے کے لیے رابعہ تحسین (طبی سائنس)، ملیحہ تقدیس ملک (زرعی سائنس) اور فضل رسول (ماحولیاتی سائنس) کو بالترتیب پہلا ، دوسرا اور تیسرا انعام دیا گیا۔ اس موقع پر پروفیسر پروین جہاں ، ڈین ، اسکول برائے سائنسی علوم نے بھی خطاب کیا۔ ریسرچ اسکالرز ، طلباوشرکاءنے کانگریس کے بارے میں اپنی آراءپیش کیں۔
قبل ازیں کانگریس کے دوران 2 دنوں میں کل چھ تکنیکی سیشن منعقد ہوئے تھے۔ پروفیسر اے کے چوہدری ، یونیورسٹی آف حیدرآباد؛ محترمہ قرة العین حسن، کرشنا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس؛پروفیسر مسعود حسین ؛ پروفیسر عارف پٹھان؛پروفیسر ایم ونجا ، ڈائریکٹر،نظامت داخلہ مانو؛پروفیسر ظفر احسن،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صدر نشین تھے۔ مانو کے اساتذہ اراکین میں ڈاکٹر ایچ علیم باشا،ڈاکٹر مسرور فاطمہ،ڈاکٹر ایس مقبول احمد، ڈاکٹر سید صلاح الدین، ڈاکٹر خواجہ معین الدین اور ڈاکٹر افروز ان تکنیکی سیشنوں کے نائب صدر نشین تھے۔
کانگریس کے پہلے دن افتتاحی اجلاس کے بعد امریکی قونصل خانہ،حیدرآباد کی ڈاکٹر مونیکا سیٹیا نے فل برائٹ اسکالرشپ پر خصوصی لیکچر دیا۔ پہلے دن ہی ایک خصوصی سیشن بھی ہوا جس میں پروفیسر قدسیہ تحسین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مہمان مقرر اور پروفیسر پروین جہاں،صدر نشین تھیں۔ تقریبا 45 شرکاءنے اپنے مقالے پیش کیے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS