برکس، جی-20 کی توسیع اور مسلم ممالک

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

انیسویں صدی کے بعد سے دنیا کی قوموں نے نیشنلزم کے بارے میں سننا، سمجھنا اور اس کو برتنا شروع کیا۔ اس سے قبل کا زمانہ مذہب کے تفوق کا دور سمجھا جاتا ہے۔ یوروپ کی تاریخ میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی تک کی مدت کو تاریک دور (Dark Age)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چودھویں صدی کا عہد یوروپی نشاۃ ثانیہ کے نقطۂ آغاز کے طور پر معروف ہے، کیونکہ یہی وہ عہد ہے جب عیسائی پادریوں اور چرچ سے آزادی حاصل کرنے اور مذہب کے بجائے سیکولر اصولوں کی بنیاد پر انسان اور فرد کی ترقی کے راستے تلاش کرنے کا دور شروع ہوا۔ اس مقصد کے لیے یونان اور روم کے کلاسیکی ادب اور ادبا کی تحریروں کو نکالا گیا، ان پر تحقیق شروع ہوئی اور نئے لباس اور نئے انداز میں ان تحریروں کو عوام کے سامنے پیش کیا جانے لگا۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مذہب اور اہل مذہب کے مظالم اور ان کے تسلط سے کسی طرح آزادی حاصل کی جائے، کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں انجماد کا شکار اور تنگ نظر مذہبی طبقے کا اثر و رسوخ غالب تھا جس کی وجہ سے زندگی کی ترقی کے راستے بالکل مسدود ہو گئے تھے، کیونکہ علم و فن اور صحیح و غلط کا فیصلہ بھی ارباب چرچ کرتے تھے۔ اس طبقے کا دبدبہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ حکمراں طبقہ بھی ان کے حکم کے تابع ہوتا تھا۔ اس کے برعکس قدیم رومی و یونانی تاریخ اور فلسفے میں انسان اور معبودوں کے درمیان تعلق کی نوعیت ایسی تھی کہ انسان مجبور محض نہیں تھا بلکہ اگر اس کے مقاصد پورے نہیں ہوتے تو وہ اپنے معبودوں سے ناراض بھی ہو سکتا تھا اور اپنی بات بلا خوف کہہ سکتا تھا۔ مغربی یورپ کا معاشرہ تاریک دور میں جن مسائل سے جوجھ کر آیا تھا، ان تجربات کی روشنی میں چودھویں صدی کے مغربی انسانوں کو لگا کہ چرچ کے مقابلے رومی و یونانی فلسفہ ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے زیادہ موزوں ہے اور یہیں سے انسان کو مرکز میں رکھ کر سماج، سیاست اور معیشت کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اٹلی کا شہر فلورنس اس کا خاص مرکز بنا اور وہاں سے یوروپ کے دوسرے حصوں میں پہنچا۔ خود عیسائیت میں کیتھولک چرچ کے خلاف بغاوت اور اصلاحی تحریکیں چلیں جو پروٹسٹنٹ ازم اور کالوین ازم کے نام سے جرمنی، فرانس، برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ تک پہنچیں جس کی طویل تاریخ ہے۔ سیاست کے میدان میں بڑا بدلاؤ یہ آیا کہ مغرب نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب اور سیاست کی راہیں الگ الگ ہونی چاہیے تاکہ جب زندگی کے نئے چیلنجز سامنے آئیں تو مذہب کی اتھارٹی حاصل کیے بغیر فوری طور پر فیصلہ لیا جا سکے۔ ایسا اس لیے ضروری تھا، کیونکہ مذہبی طبقہ عام طور پر تنگ نظر اور مسائل کی گہرائی سے کم واقفیت رکھنے کی وجہ سے حل پیش کرنے کے بجائے پیچیدگیوں کا طویل سلسلہ شروع کر دیتا ہے جس سے انسان کی روز مرہ کی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے اور ترقی کی گاڑی ٹھٹھک کر رک جاتی ہے۔ مذہب و سیاست کے درمیان تفریق کے اسی نظام کو سیکولرزم کے نام سے جانا گیا۔ بہرکیف، جب یوروپ نے لگاتار ترقی کرتے ہوئے مغربی استعمار اور سامراجی نظام کو قائم کیا تو باقی دنیا نے بھی قومیت اور سیکولرزم جیسے اصولوں سے واقفیت حاصل کی۔ مسلم دنیا بھی اس سے اچھوت نہیں رہی بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ مسلم دنیا سے ہی مغربی استعمار کا پہلا مقابلہ ہوا۔ اسپین سے لے کر ہندوستان تک ہر جگہ یوروپ کا سکہ چلنے لگا۔ جہاں جہاں خلافت عثمانیہ کا جھنڈا بلند تھا وہاں سے انہیں نکالنے کی ایسی پلاننگ تیار کی گئی کہ بیسویں صدی کے بالکل آغاز تک پوری خلافت عثمانیہ بکھر کر رہ گئی۔ عثمانی خلافت کا مرکز استنبول بھی یوروپ کے حصے میں چلا جاتا اگر کمال اتاترک جیسے جنرل نے اس کو بچانے کی تدبیر نہ سوچی ہوتی۔ اس کی وجہ سے کمال اتاترک کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ دین اسلام ہی پچھڑے پن کا سبب ہے اور اسی لیے اس نے خلافت کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ساتھ قرآن کو عربی میں پڑھنا، اذان دینا اور ترکی کلاہ کا پہننا ممنوع قرار دے دیا اور اس کی جگہ مغرب کے اصول کے مطابق ترکی کی تشکیل نو کی اور تھوڑے بدلاؤ کے ساتھ آج بھی وہ اسی نہج پر قائم ہے۔ طیب اردگان کی پارٹی اے کے پی جس کا شجرہ رفاہ پارٹی اور نجم الدین اربکان کی تربیت سے جا ملتا ہے اور جس نے اسلام کا استعمال سیاسی اغراض کے لیے اس حد تک کیا ہے کہ مسلم دنیا میں اردگان کو مسیحا سمجھا جانے لگا ہے۔ حالانکہ اے کے پی کا اسلام ازم سے کوئی تعلق بالکل نہیں ہے لیکن عوامی جذبے کے اعتبار سے اردگان ایک اسلام پسند سمجھے جاتے ہیں اور کوئی اس پر کلام بھی نہیں کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ جب تمام مسلم ممالک اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پیدا ہونے والے مسائل سے ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور باقی دنیا بالخصوص اقلیت کے طور پر جینے والے مسلمانوں سے ان کا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا ہے تو پھر برکس یا جی-20 جیسے عالمی پلیٹ فارموں سے مسلم ممالک کی وابستگی کی صورت میں یہ جذبہ مسلم اقلیتوں کے دل میں کیوں ابھر اٹھتا ہے کہ ان کے مسائل کے بارے میں بھی یہ مسلم ممالک دنیا سے بات کریں گے اور ان کی مشکلات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عملی طور پر گرچہ مسلم حکمراں قومیت اور نیشن اسٹیٹ کے دائرے میں کام کرتے ہیں لیکن فکری طور پر مسلمان ایک عالمی امت ہے۔ اس حقیقت سے وہ مسلم ممالک بھی انکار کرنے کی جرأت نہیں کرتے جو خود نیشن اسٹیٹ کے اصولوں پر کاربند رہ کر اپنا سارا کام کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اندر ایک عالمی امت ہونے کا جذبہ سب سے زیادہ گہرا ہے، کیونکہ وہ مسائل سے نسبتاً زیادہ دوچار ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں میں یہ خیال اس لیے بھی ابھر آتا ہے، کیونکہ موجودہ دور میں ہندوتو کی سیاست نے انہیں بے حال اور کسی قدر مایوس کر دیا ہے، اس لیے جب کبھی عرب یا مسلم ممالک برکس یا جی-20 کا حصہ بنتے ہیں تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید ان کے زخم پر مرہم رکھنے کا کام یہ مسلم ممالک کریں گے اور اعلیٰ سطحوں پر ان کے بارے میں بات ہوگی، کیونکہ جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا مصری، حسن البنا شہید اور سید قطب سے لے کر مولانا مودودی اور علامہ اقبالؔ نے پین اسلام ازم کی جو زمین تیار کی تھی، اس سے آج تک مسلمان باہر نہیں آ سکے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو تحریکیں پین اسلام ازم کے نام پر شروع ہوئی تھیں، انہوں نے خود بھی وقت گزرنے کے ساتھ قومیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ یہ تصویر جزائر سے لے کر کوسووا، مصر لے کر پاکستان ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن عالمی امت ہونے کے ناطے جو رشتہ دین کی بنیاد پر ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ قائم ہے، اس کی وجہ سے مظلوم مسلم اقلیتوں کی نظریں اپنے ہم عقیدہ حکمرانوں کی طرف اٹھ ہی جاتی ہیں۔ حالانکہ جس طرح پین اسلام ازم تمام جگہوں پر قومیت اور نیشن اسٹیٹ کے دائرے میں سمٹ کر رہ گیا ہے اسی طرح سے عرب مسلم ممالک بھی گرچہ وقتاً فوقتاً اسلام اور مسلمان کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اسلام اور مسلم مخالف لیڈران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اگر ہم برکس اور جی-20 کے حوالے سے ہی بات کریں تو ہم اکثر یہ سنتے اور پڑھتے ہیں کہ یہ دونوں پلیٹ فارم خاص طور سے برکس گلوبل نارتھ (مغربی دنیا) کے مقابلے گلوبل ساؤتھ (غیر مغربی ممالک) کی آواز کو مضبوط کرنے اور ان کی آواز کو بلند کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ مذکورہ بالا دونوں عالمی پلیٹ فارموں میں چین اور ہندوستان طاقتور بن کر ابھرے ہیں۔ مسلم دنیا میں ان کی باتیں کافی تیزی سے ہونے لگی ہیں، کیونکہ برکس کی آخری چوٹی کانفرنس جس کا انعقاد گزشتہ مہینے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہوا تھا، اس میں 6 نئے اراکین کو شامل کیا گیا ہے، ان میں سے 4 عرب اور مسلم ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ جی-20 کی توسیع بھی دہلی میں منعقد ہوئی چوٹی کانفرنس میں ہوئی اور یوروپی یونین کی طرح افریقی یونین کو اس کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ مسلم دنیا کی عالمی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کی ویب سائٹ کے مطابق افریقی یونین میں تقریباً 27 ایسے ممالک ہیں جو یا تو مسلم ہیں یا مسلم اکثریت والے ممالک ہیں، اس لیے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید ہندوستان کی ہندوتو کی سیاست میں کچھ مثبت تبدیلی پیدا ہو اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں منصفانہ رویہ خود وزیر اعظم نریندر مودی میں دیکھنے کو ملے۔ آخرکار اب تک 6 عرب اور مسلم ممالک نریندر مودی کو اپنے یہاں کے سب سے اعلیٰ اور امتیازی انعامات سے نواز چکے ہیں اور جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر و فلسطین اور بحرین شامل ہیں۔ ان ملکوں میں نریندر مودی نے مساجد کا بھی دورہ کیا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزارا ہے اور انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ تو کیا اس کا کوئی فائدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پہنچے گا؟ بظاہر اس کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔
فروری 2019 میں جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے چین کا دورہ کیا تھا تو اویغور مسلمانوں کے خلاف جاری چین کی بربریت کو صحیح ٹھہرایا تھا جس پر اویغور حقوق کے لیے سرگرم عمل کارندوں نے اپنے سخت غصے کا اظہار کیا تھا اور محمد بن سلمان کی سخت تنقید کی تھی کہ وہ چین کی زبان بول رہے ہیں اور انہوں نے کنسٹریشن کیمپوں میں غیر انسانی طور پر رکھے جا رہے اویغور مسلمانوں کی دفاع میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ برطانیہ میں موجود مسلم کاؤنسل کے ترجمان مقداد وِرسی نے سعودی ولی عہد کے بیان کو حقارت آمیز قرار دیا تھا۔ اسی طرح جرمنی میں واقع ورلڈ اویغور کانگریس نے بھی اس کی سخت تنقید کی تھی لیکن محمد بن سلمان جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد یمن میں بھی سعودی پالیسی پر مغربی ملکوں میں محمد بن سلمان کو نشانا بنایا جا رہا تھا لیکن چین نے کبھی سعودی عرب پر تنقید نہیں کی تھی۔ محمد بن سلمان اس کا بدلہ چکا رہے تھے۔ اس کو بھی اسلام کی آفاقیت کے مقابلے قومیت کے تفوق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جولائی 2019 میں جب یو این ہیومن رائٹس کاؤنسل میں دو درجن مغربی ملکوں نے اویغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جا رہے مظالم کے خلاف کھلا خط لکھا اور چین پر اویغور کے ساتھ بہتر رویے کے لیے زور دیا تو اس واقعے کے صرف ایک ہفتے کے بعد ہی 37 ملکوں نے چین کی دفاع میں خط لکھا۔ ان میں سے 22 مسلم اور عرب ممالک تھے۔ اس بارے میں جب یو این میں سعودی سفیر عبداللہ المعلمی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس خط میں صرف چین کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں بات کی گئی ہے، اس کے علاوہ کسی مسئلے پر نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان ہو، ان کی سب سے زیادہ فکر سعودی عرب کو ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف جھوٹ تھا۔ اس جھوٹ کو یو این ہیومن رائٹس کے ڈائرکٹر لوئس چربونیو نے بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خط چین میں مظالم سہہ رہے مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ ہے اور معلمی کی بات بیہودگی کی حد تک غلط ہے۔ یہی سعودی عرب ہے جس نے 2018 میں کناڈا کے خلاف سخت موقف اپنایا تھا اور اس سے نہ صرف اپنے سارے سفارتی تعلقات ختم کر لیے تھے بلکہ وہاں زیر تعلیم سعودی طلبہ و طالبات کو نقل مکانی کا حکم دے دیا تھا اور جو 800 سعودی ڈاکٹر تربیت حاصل کر رہے تھے، انہیں فوراً بلا لیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ رائف بداوی اور سمر بداوی جو کہ انسانی حقوق کے کارکنان ہیں، ان کی گرفتاری سعودی عرب میں عمل میں آئی تھی اور انسانی حقوق کے معاملے میں کناڈا کی وزیر خارجہ نے اس پر ٹوئٹ کرکے سعودی عرب کو انہیں آزاد کرنے کی نصیحت کی تھی۔ شاید کناڈا نے اس کو اس لیے ضروری سمجھا ہو، کیونکہ رائف کی بیوی کناڈا کی شہریت حاصل کر چکی تھی اور کناڈا کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اصول کی پابندی کرتے ہوئے اس پر اپنی رائے دے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یمن میں سعودی پالیسی کو کناڈا نے نشانہ بنایا تھا، کیونکہ وہاں لاکھوں زندگیاں تباہ ہو رہی تھیں اور آج بھی صورتحال بد تر ہے۔ خادم الحرمین الشریفین کا خطاب رکھنے والا ملک کناڈا کے خلاف جس طرح سخت ہوا تھا اسی طرح 2015 میں سویڈن اور 2017 میں جرمنی کے ساتھ بھی حقوق انساں کے معاملے پر سختی دکھا چکا ہے، کیونکہ ان ملکوں نے سعودی میں بدتر انسانی حقوق پر تنقید کی تھی لیکن اتنا سخت موقف کبھی قرآن اور پیغمبر اسلام کی توہین کے مسئلے پر نہیں دکھایا۔ کناڈا کے ساتھ پانچ برسوں تک قطع تعلق رہا اور اسی سال مئی کے مہینے میں دوبارہ تعلق بحال ہوا ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم کی پذیرائی اور عزت افزائی عرب اورمسلم ملکوں میں اس وقت ہو رہی تھی جب مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور ان کی عبادت سے لے کر طرز طعام و لباس ہر شے پر سوال کھڑے کیے جا رہے تھے بلکہ ان کی لنچنگ ہو رہی تھی۔ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا تھا؟ اس کی اصل وجہ اقتصادی مفاد ہے۔ جیسا کہ کناڈا کے ساتھ بحالی تعلقات کے موقع پر کناڈا کے ایک پروفیسر نے کہا تھا کہ اب محمد بن سلمان کی خارجہ پالیسی میں جارحیت کی جگہ اقتصادی مفادات نے لے لی ہیں۔ یہی موجودہ دور کی حقیقت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی یہ سیکھنا چاہیے کہ اپنے مسائل کا حل انہیں اپنے ہی ملک کی سرحدوں میں ڈھونڈناہے۔ یہ دور نیشن اسٹیٹ کا ہے جہاں ہر ملک اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ برکس یا جی-20 میں مسلم ممالک کی رکنیت سے مسلم اقلیتوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تعلیمی ترقی اور اپنے بچوں کی بہتر تربیت سے نکلے گا۔ خدا کرے کہ مسلم دنیا ترقی کرے اور باقی اقوام عالم کے ساتھ مل کر ایک بہتر دنیا قائم کرے تاکہ پوری انسانیت کو اس کا فائدہ پہنچے۔ اگر ان تنظیموں سے کوئی فائدہ پہنچتا تو عرب لیگ، گلف کو آپریشن کاؤنسل اور او آئی سی کی موجودگی میں خود عرب اور مسلم دنیا میں ہر طرف مسائل کا انبار نہ ہوتا۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS