آکسفورڈ کی کورونا ویکسین کے آزمائشی تجربے میں شامل برازیل کے ایک رضاکار کی موت

0

نئی دہلی، برازیلیا: برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی آسٹر زینیکا کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کردہ کورونا ویکسین کے تیسرے مرحلے کے انسانی تجربے میں شامل برازیل کے ایک رضاکار کی موت ہو گئی ۔ تاہم اس کے باوجود کمپنی اپنا آزمائشی تجربہ جاری رکھے گی۔
ایسٹرا زینیکا کی یہ ویکسین ایک بار پھر تنازعات کی زد میں آ گئی ہے ۔ برازیل میں اس ویکسین  کے تیسرے مرحلہ کا انسانی تجربہ ہو رہا ہے ، اور اس تجربے میں شامل ایک رضاکار کی موت ہوگئی ہے ۔برازیل کی وزارت صحت نے آج کہا کہ اس واقعے کے باوجود ویکسین کا آزمائشی تجربہ جاری رکھا جائے گا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ آزمائشی تجربہ جاری رکھا جائے گا۔
آسٹرا زینیکا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی لیکن اس نے بتایا کہ معاملے کا جائزہ لینے کے بعد آزمائشی تجربہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اس آزمائشی تجربے میں شامل رضاکاروں کو کورونا ویکسین کی ڈوز دی گئی تھی یا پلیسبوکی ۔ مقامی میڈیا کے مطابق وہ رضاکار 28 سال کا تھا اور پیشے سے ڈاکٹر تھا۔ وہ ریو ڈی جنیرو کا رہنے والا تھا۔ اس کی موت  کورونا انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں سے ہوئی ہے۔
برازیل میں اس ویکسین  کے لئے تیسرے مرحلے  کاانسانی تجربہ ساؤ پالو کی  فیڈرل یونیورسٹی کی زیر نگرانی ہو رہا ہے۔ برازیل میں یہ آزمائشی تجربہ 10،000 رضاکاروں پر ہونا ہے ، جن میں سے 8،000 رضا کاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سےکئی افراد کو ویکسین کی پہلی ڈوز دی گئی ہے اور کئی افراد کو دوسری ڈوز بھی دی گئی ہے۔
اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کا انسانی آزمائشی تجربہ برازیل کے علاوہ ہندوستان اور برطانیہ میں بھی ہو رہا ہے ۔ امریکہ میں ایک رضاکا کے بیمار ہونے سے کی وجہ سے ہندوستان میں اس ویکسین کے آزمائشی تجربے پر کچھ دن کے لئے پابندی عائد کردی گئی تھی ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی اسے دوبارہ شروع کردیا گیا تھا۔ برطانیہ میں بھی آزمائشی تجربہ شروع کردیا گیاہے لیکن امریکہ میں اب بھی آزمائشی تجربے  پر پابندی  برقرار ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS