آسام تشدد معاملے پر سعودی میں ہندوستانی مصنوعات کی بائیکاٹ

0

نئی دہلی(ایجنسی):ہمیں گذشتہ کچھ برسوں میں کئی مرتبہ مصنوعات کے بائیکاٹ کے ٹرینڈ دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایسی مہم عام طور پر کسی ملک کے متنازع اقدام یا کسی مخصوص واقعے کے باعث چلائی جاتی ہے اور اب انھیں بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا ہے۔

حالیہ عرصے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں کے بیانات نے مسلمانوں کو ناراض کیا تھا جس کے بعد مسلمان ممالک خصوصاً عرب ممالک کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تھی۔

اس وقت فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت حاصل کی تھی۔

اسی طرح حالیہ عرصے میں امریکی ریاست ٹیکساس کی جانب سے اسقاطِ حمل مخالف قانون پاس کرنے پر ریاست پورٹ لینڈ نے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر غور کرنا شروع کیا تھا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے متعلق مہم بھی گاہے بگاہے چلائی جاتی رہی ہے۔

ایسی ہی ایک مہم اس وقت عرب دنیا میں سوشل میڈیا پر انڈیا کی مصنوعات کے حوالے سے بھی چلائی جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے صوبہ آسام میں ایک مسلمان شخص پر ہونے والے حملے کی ویڈیو اب دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہے۔

اس ویڈیو کے باعث سوشل میڈیا پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خاص کر عرب ممالک میں انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ انڈیا کو ‘مسلمانوں کا قتل بند کرنے’ پر مجبور کیا جائے۔

انڈیا میں سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن حکومت پر اس تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے آئے ہیں اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس معاملے میں حکومتی اقدامات کو ’نازی‘ قرار دیا ہے۔

ایسے میں عرب ممالک میں ہیش ٹیگ ’انڈیا مسلمانوں کا قتل کرتا ہے‘ بھی ٹرینڈ کرتا رہا ہے جس میں انڈیا پر نسل کشی کا الزام لگایا گیا۔ ان ٹرینڈز میں بہت سے لوگوں نے بے گھر خاندانوں کے لیے اپنی حمایت اور حکام کی جانب سے ان کے ساتھ سلوک کی مذمت کا اظہار کیا۔

کتاب ’اسلاموفوبیا‘ کے مصنف اور محقق خالد بیڈون نے اسے ’ریاستی حمایت یافتہ اسلاموفوبیا‘ اور ’ہندو قومی تشدد‘ کے طور پر بیان کیا۔آسام کی حکومت نے گزشتہ چند مہینوں سے کچی بستیوں کو خالی کرانے کی مہم چلا رکھی ہے۔

حکومت وہاں مقیم افراد کو ‘درانداز’ کہتی ہے۔ اس طرح کے لاکھوں بے زمین اور غریب لوگ آسام کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ آباد ہیں۔ایسی ہی ‘غیر قانونی تجاوزات’ کے خلاف حکومتی کارروائی کے دوران ضلع درانگ کے علاقے سیپا جھار میں گذشتہ ہفتے ہونے والے تصادم میں ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کی بےحرمتی کی ویڈیو منظر عام پر آئی اور پھر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید مذمت بھی کی گئی۔آسام کے وزیراعلیٰ کی مسلمانوں میں زیادہ بچوں کی پیدائش سے متعلق دعووں کی حقیق.

بی بی سی ہندی کے مطابق جھونپڑیوں پر مشتمل اس بستی کے ہزاروں لوگوں نے زمین خالی کرانے کی اس مہم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت صدام حسین اور شیخ فرید کے نام سے ہوئی ہے۔اس تصادم کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھ میں کیمرا لیے ایک شخص ہلاک ہونے والے شخص کی لاش پر کود رہا ہے۔

بعد میں سامنے آنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کودنے والا شخص ایک مقامی فوٹوگرافر ہے جس کی خدمات ضلعی انتظامیہ نے صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ردِ عمل دیتے ہوئے تجزیہ نگار عبداللہ العمادی کا کہنا تھا کہ ’ہم فوجی اور سیاسی طریقوں سے تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہمارے پاس بائیکاٹ کا ہتھیار موجود ہے۔ ایک طرف ہمارے بھائیوں کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مارا جا رہا ہے اور ان کو واضح طور پر حکومتی معاونت دی جا رہی ہے۔ اور ہمیں یاد ہے کہ بائیکاٹ فرانس ٹرینڈ کی کتنی اہمیت تھی۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’مسلمان انڈیا کو فرانس کی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ اس لیے یہ مہم جاری رکھیں۔‘

محمد الصغیر نے لکھا کہ ’بائیکاٹ کرنے کا آئیڈیا برائی کو روکنے کا سب سے نچلا درجہ ہے اور یہ ایسے افراد کے لیے اپنی آواز اٹھانے کا طریقہ ہے جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا اور یہ یکجہتی کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔‘

احمد قسیم نامی ایک صارف نے لکھا کہ عرب حکمران بہت کمزور ہیں، وہ انڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے، لیکن معاشی بائیکاٹ سے انڈیا کو تکلیف ہو گی اور ان کو بھی جو مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS