مغربی بنگال میں خون آلود پنچایت الیکشن

0

شدید سیاسی مقابلہ، خونریزی اورجان و مال کے بھاری نقصانات کے بعد مغربی بنگال میں پہاڑ سے سمندر اور جنگل تک سب کچھ ’ہراہرا‘ نظر آرہا ہے۔ مغربی بنگال پنچایت انتخابات کے آنے والے حتمی نتائج کے مطابق ترنمول کانگریس نے غیر معمولی جیت حاصل کی ہے۔پنچایت انتخابات کے نتائج اس بات کے بھی مظہر ہیں کہ دیہی بنگال کے عوام ممتابنرجی کا کوئی متبادل تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے ہیں۔ گرام پنچایت، پنچایت سمیتی سے لے کر ضلع پریشد تک لوگوں نے جھولی جھولی بھربھر کر ان کی پارٹی کو ووٹ ڈالاہے۔ترنمول کانگریس نے ریاست میں تقریباً 80 فیصد سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ بی جے پی،سی پی آئی(ایم)،کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کی سیٹیں 20 فیصد تک کم ہو گئی ہیں۔
ضلع پریشد کی کل 928سیٹوں میں740سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو کامیابی ملی ہے۔ کامیابی کی یہ غیر معمولی شرح گرام پنچایت اور پنچایت سمیتیوں میں بھی ہے۔کمیشن کی تازہ ترین معلومات کے مطابق گرام پنچایت کی 63 ہزار 229 سیٹوں میں سے ترنمول نے 41 ہزار 71 سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی طرح پنچایت سمیتی کی 9730 سیٹوں میں سے ترنمول کانگریس نے 4938 پر قبضہ کیا ہے۔ گرام پنچایت کی 63 ہزار 229 سیٹوں میں سے مختلف پارٹیوں کے امیدوار پہلے ہی 8002 سیٹوں پر بغیر مقابلہ جیت چکے ہیں۔ ان میں سے ترنمول کانگریس نے 7,944 سیٹیں جیتی ہیں، جب کہ بی جے پی نے 2، سی پی آئی (ایم) نے تین اور آزاد امیدواروں نے 53 سیٹیں جیتی ہیں۔ پنچایت سمیتی کی 9730 سیٹوں میں سے 991 امیدواروں نے مختلف پارٹیوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ ترنمول نے بغیر کسی مقابلے کے 981 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ دیگر پارٹیوں کے 10 امیدواروں نے بھی اسی طرح کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی طرح ترنمول کے امیدواروں نے 928 ضلع پریشد سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے 16ضلع پریشد پر قبضہ کرلیا ہے۔ باقی نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔
لیکن اس ووٹنگ کی بھاری قیمت بنگال کے عوام کو اداکرنی پڑی ہے۔گنتی والے دن ووٹوں کے ساتھ لاشیں بھی گنی گئیں۔ نامزدگی سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک مغربی بنگال پنچایت انتخاب کی قربان گاہ پر 40افراد نے اپنی جان کا ’نذرانہ‘ پیش کیا۔ افسوس اور حیر ت کی بات یہ ہے کہ تشدد کے زیادہ تر واقعات اقلیتوں کی اکثریت والے علاقوں میں مرشدآباد، مالدہ، دیناج پور، جنوبی 24پرگنہ میں ہی پیش آئے نیزمرنے والے مارنے والوں کی اکثریت کا تعلق بھی اقلیتی طبقہ سے ہی ہے۔
تشدد اور خون ریزی کے ان واقعات پر کلکتہ ہائی کورٹ نے ریاستی الیکشن کمیشن کی سخت سرزنش بھی کی اور یہ دریافت کیا کہ عدالت کے مسلسل احکامات کے باوجود تشدد کے واقعات پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا۔ریاستی الیکشن کمشنر نے عدالتی استفسار پرکہا کہ کافی تعداد میںمرکز ی فورسز نہ ملنے کی وجہ سے کچھ اضلاع میں تشدد کے اکادکا واقعات پیش آئے۔40افراد کی موت اور سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کے واقعات اگر اکا دکا سمجھے جائیںتو اسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مغربی بنگال میں انتخابی تشدد کامنظر نامہ کتنا خونچکاں ہوگا۔
تشدد کے خدشہ کے پیش نظر کلکتہ ہائی کورٹ نے مرکزی فورسز کی نگرانی میں انتخابات کی ہدایت کی تھی جس پرعمل کرتے ہوئے کمیشن نے مرکزی وزارت داخلہ سے 822 کمپنیوں کا مطالبہ کیا تھا۔ ویسے اس سے قبل الیکشن کمیشن نے صرف 22 کمپنیاں ہی مانگی تھیں۔ اس کے بعد ریاست میں یہ کشمکش شروع ہوگئی کہ انتخابات مرکزی فورسز کی نگرانی میں کرائے جائیں یا نہیں۔ ہائی کورٹ کی ہدایات کے خلاف ممتا حکومت سپریم کورٹ بھی پہنچ گئی لیکن سپریم کورٹ نے اس کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی ہدایت کو برقرار رکھا۔ جسٹس ناگارتنا نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تشدد کا لائسنس نہیں ہو سکتا اور ہائی کورٹ نے ماضی میں تشدد کے واقعات دیکھے ہیں۔اگر لوگ اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قاصر ہیں اور کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے راستے میں مارے جا رہے ہیں تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کہاں ہیں؟ اس کے بعد ریاستی الیکشن کمیشن نے مرکزی وزارت داخلہ سے مزید 800 کمپنیاں بھیجنے کی درخواست کی، لیکن اس میں سے صرف 660 کمپنیاں آخر تک بنگال پہنچ پائیں۔ اس ساری پیش رفت کو دیکھ کریہی محسوس ہوتاہے کہ تشدد کے خدشات اور پیش گوئی کے باوجود محض سیاسی بالادستی دکھانے کیلئے عوام کی سلامتی سے سمجھوتہ کیا گیا۔یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، مغربی بنگال میں انتخابی تشدداب تو روایت کا درجہ حاصل کرچکا ہے بغیر خون بہائے نہ تو پرچہ نامزد داخل کیاجاتا ہے اور نہ ووٹنگ ہوتی ہے اور نہ ووٹوں کی گنتی ہی ہوپاتی ہے۔ جب مغربی بنگال میں بائیں بازو کی حکومت تھی تب بھی انتخابات میں تشدد ہوا کرتا تھا اور اب ترنمول کانگریس کے طویل دور حکومت میں بھی حالات نہیں بدلے ہیں۔
40افراد کی قربانی دے کر پنچایتوں پر قبضہ ہوسکتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کیلئے کوئی مہنگاسودا نہ ہو لیکن یہ ریاست اور ملک کیلئے انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ضرورت ہے کہ اس مسئلہ پر سیاسی روٹی سینکنے کے بجائے اس کے حل کی جانب توجہ دی جائے اور مغربی بنگال میں جمہوری فضاکو بہتر بنایاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS