بی جے پی کو اپوزیشن کا خوف

0

بالآخر اترپردیش کی پولیس نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ لکھیم پور کھیری جارہی کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کو گرفتار کیاگیا ہے اور سیتاپور کے پی اے سی گیسٹ ہائوس میں ان کیلئے عارضی جیل بنائی گئی ہے۔ کل تک پولیس اس معاملہ میںلب بستہ تھی۔گرفتاری کی تصدیق کرنے کے بجائے معاملہ کو الجھانے میں لگی ہوئی تھی۔ منگل کو پولیس کی جانب سے جاری وضاحت میں یہ کہاگیا ہے کہ پرینکاگاندھی، ہریانہ کے کانگریس راجیہ سبھا رکن دیپیندر ہڈا اوراترپردیش کانگریس کے ریاستی صدر اجے للو سمیت کل11 لوگوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
کسانوں پرہونے والے تشدد اور شرم ناک بربریت کے بعد پولیس نے جس مستعدی کے ساتھ اپوزیشن لیڈروں کا گھیرائو کیا اور لکھیم پور کھیری ضلع کو ان کیلئے ’ نوگوزون ‘بنادیا اگر وہی مستعدی واقعات سے پہلے دکھائی ہوتی تو 9افراد کی جانیں نہیں جاتیں۔کار چڑھاکر کسانوں کو کچلا نہیں جاتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش حکومت اور پولیس کسانوں کو سبق سکھاناچاہتی تھیں اس لیے تشدد اور کار چڑھائے جانے کے و اقعہ کے وقت وہ بالکل ہی بے عمل ہوگئی اورجیسے ہی کسان کچلے گئے اس نے پورے ضلع کو‘نوگو زون ‘ بنادیا۔ حکم امتناعی نافذ کرتے ہوئے خاص کر اپوزیشن لیڈروں اور سماجی کارکنوں کے داخلہ پر پابندی لگادی۔انٹر نیٹ اور موبائل رابطے کاٹ ڈالے۔ قانون کو طاق پر رکھتے ہوئے پرینکا گاندھی کو رات کے اندھیرے میں مرد پولیس افسر کے ذریعہ گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کا تو نہ کہیں ریکارڈ رکھاگیا اور نہ ہی کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کی گئی۔پولیس کے یہ اقدامات بتا رہے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کی مرضی اورا پنی صوابدید سے کام کرنے پر یقین رکھتی ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اپوزیشن لیڈروں کو کسانوں سے ملنے میں رکاوٹ ڈالی جاتی۔
دراصل اترپردیش میں اگلے چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور یہاں کسان تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ لکھیم پور کھیری کے واقعہ کے بعد پورا اپوزیشن کسانوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے اور یہی یوگی حکومت کیلئے مشکلات کا سبب ہے۔اس لیے پولیس کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو کسانوں سے دور رکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔
بی جے پی چاہتی ہے کہ کسان نئے زرعی قوانین کو قبول کرتے ہوئے حکومت کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کردیںاور ان کی یہ تحریک ختم ہوجائے۔لیکن اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔سوا ارب ہندوستانیوں کے منھ تک نوالہ پہنچانے والے کسانوں کواپنے رویہ اور اقدامات سے حکومت نے اس مقام پر پہنچادیاہے جہاں ان کیلئے کرو یا مرو جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔کسان گزشتہ ایک سال سے اپنی تحریک میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کبھی کسانوں کی مہاپنچایتیں لگ رہی ہیں تو کبھی مظاہرہ اور احتجاجی ریلی نکالی جارہی ہے۔ لیکن حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے ان کی تحریک کو دبانے اور ختم کرنے میں مصروف ہے۔ تحریک کے اوائل میں شروع کیے گئے مذاکرات کا سلسلہ بھی اب ختم کردیاگیا ہے۔زرعی قوانین کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کی بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ بھی ا ب تک عام نہیں کی گئی ہے۔لکھیم پور کھیری میں جب کسانوں کے احتجاجی جلسہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی تو کسانوں پر بزن بول دیاگیا۔ مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے صاحبزادے آشیش مشرا عرف منٹو نے کسانوں پر اپنی کار چڑھادی اور کار سے کچلے جانے کی وجہ سے کئی کسان ہلاک ہوگئے۔
لکھیم پور کا یہ واقعہ پنجاب اوراتراکھنڈ جیسی انتخابی ریاستوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔ پنجاب میں بی جے پی پہلے سے ہی اقتدار میں نہیں ہے جب کہ اتراکھنڈ میں حکومت بچانے کی کوشش ہورہی ہے تو اترپردیش میں کسانوں کے قتل کا سنگین مسئلہ بی جے پی کے گلی کی ہڈی بن گیا ہے۔اس لیے حکومت نہیں چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے لیڈران کسانوں سے ملیں اور ان کی تحریک میں ساتھ د ے کر آنے والے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی مشکلات بڑھائیں۔
یہی وجہ ہے کہ تشدد اور بربریت کے اس شرم ناک واقعہ کی ذمہ داری کسانوں پرعائد کرنے کی بھی کوشش ہورہی ہے تو دوسری طرف لکھیم پور سے اپوزیشن کو دور رکھاجارہاہے۔پرینکا گاندھی کو لکھیم پور کھیری جانے سے روکنے کیلئے رات کے اندھیرے میں گرفتارکرنا، اکھلیش یادو، بھوپیش بگھیل، چرنجیت سنگھ چنی جیسے رہنماؤں کو لکھیم پور جانے سے روکاجانا یہی بتارہا ہے کہ بی جے پی حکومت اپوزیشن سے خوفزدہ ہے۔آنے والے انتخاب میں لکھیم پور کا واقعہ بی جے پی کیلئے بھاری پڑسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS