پنکج چترویدی
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دنوں بھوپال میں جتنا پانی برسا وہ عام برسات نہیں تھی۔ 36 گھنٹے میں ہی 13 انچ برسات ۔ لیکن جس طرح سے بھوپال جیسا شہر پوری طرح دریا بن گیا، یہ بھی امیدوں کے برعکس تھا۔ 20 گھنٹے شہرکی بجلی گل رہی۔ عالی شان کہلانے والی کالونیوں میں کشتیاں چل رہی تھیں۔ شہر کی سبھی اہم سڑکیں گہرے گڑھوں میں تبدیل ہو گئیںاور شہر کی شان کہلانے والی ہریالی زمین پر بچھ گئی۔ بڑے تالاب کی شان ’کروز‘ پانی میں ڈوب گیا۔ نچلی بستیوں میں 10 سے 12 فٹ پانی بھرا تو شہر کے ’مارڈن آرکٹیکچرل‘ کی مثال ایکو گرین سٹی، مِنال ریزیڈنسی ، گولڈن سٹی بھی کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبی رہیں۔
مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال ، جس کے آبی نظام کو کبھی سیویٹزرلینڈ کی طرح مانا جاتا تھا ، ایک ہی بارش میں اس طرح پانی -پانی ہوا، اس کے وہ بھی اسباب تو ہیں ہی جو دیگر شہروں کے ہوتے ہیں، لیکن اصل سبب ہے وہاں کے روایتی تالابوں کے ساتھ ہوئی چھیڑ چھاڑ ، جو کہ اس سے بھی دو گنی برسات کے پانی کو اپنے اندر جذب کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ کنکریٹ کی میناریں کھڑی کرنے کی ہوس میں سماج ان کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ، اسی کانتیجہ ہے بھوپال کی جدید بستیاں سیور بن گئیں ۔ اس سے پہلے بھی 2012 میں ایسی تباہی آ چکی ہے۔ جو شہر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے نام پر کئی کروڑ خرچ کر چکا ہے وہاں آب و ہوا کی تبدیلی کے دور میں بے موسم برسات کی کوئی تیاری نظر نہیں آئی۔
یہ سچ ہے کہ بھوپال شہر کی جس طرح توسیع ہوئی ، اس کے مقابلے میں وہاں بنیادی ڈنچہ کی ترقی نہیںہوئی ۔ شہر میں723 نالے ہیں، لیکن ان میں سے 80 فیصد پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس لیے ان کی کبھی صفائی ہو نہیں سکتی۔ یہاں ہر روز 750 میٹرک ٹن کوڑا نکلتا ہے لیکن میونسپل کارپوریشن کی صلاحیت محض 250 میٹرک ٹن کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوڑا سالوں سے رہائشی علاقوں میں ہی جمع ہو رہا تھا اور برسات کے زور پکڑنے پر یہ نیم مردہ سیوروں میں پھنس گیا ۔واضح رہے کہ بھوپال کی آبادکاری پہاڑوں کے بیچ ہے اور اسی کے بیچ قدرتی جھیلیں ہیں، اس طرح چاہے جتنے بادل برسیں، پورا پانی تالابوں کی گود میں گرے گا۔ لیکن آج لوگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ بھوپال کی عظیم تاج المساجد کے پیچھے 3 تالابوں کی ایسی قطار تھی جو پورے شہر کی برسات کے پانی کا نظم کرتی تھی۔ بڑے تالاب و چھوٹے تالاب تو ہیں ہی۔ موتیا تالاب، نواب صدیقی تالاب اور منشی حسین تالاب۔ یہ تینوں ایک نہر سے جڑے ہوئے تھے۔ عیدگاہ ہلس علاقے کا برساتی پانی سب سے پہلے موتیا تالاب میں آتا، پھر اس سے اگلے اور پھر اگلے تالاب میں۔ جب تینوں تالاب بھر جائیں تو ایک اور نہر تھی ، منشی تالاب میں جو کہ سیفیہ کالج کے پیچھے سے ہوتی ہوئی حمیدیہ روڈ کے گرودوارے کے پاس بنے گرو بخش تلیا میں گرتاتھا۔ آج ماتیا تالاب تو گندے پانی کے نکاسی کی سبب گڑھا بن گیا اس میں کوئی 7 نالے گرتے ہیں۔ نواب صدیقی تالاب کے 60 فیصد پر لوگوں نے مٹی بھر کر کالونی بنا لی۔ ایل بی سی اسپتال اور کئی دیگر اسپتالوں کے نیچے اس کی نہریں دب کر ٹوٹ گئیں۔ تیسرے تالاب کی حالت تو سب سے خراب ہے اور وہاں اب محض کیچڑ رہ گئی ہے۔ حالاں کہ ہائی کورٹ بھی کئی بار ان تالابوں سے ناجائز قبضہ ہٹانے اور ان کو صاف کرنے کی ہدایت دے چکا ہے لیکن اب مان لیا گیا ہے کہ انہیں زندہ کرنا نا ممکن ہے اور تالاب سے زیادہ اہم اس پر بنی تعمیرات ہیں۔ انتظامیہ بھلے ہی یہ مان لے لیکن جب برسات نے اپنا اثر دکھایا تو سمجھ میں آیا کہ پانی کے راستے میں مکان بنانے سے پیدا ہوا المیہ کیا ہوتا ہے۔
بھوپال کا بڑا تالاب 11 ویں صدی میں پرمار خاندان کے راجہ بھوج نے بنوایا تھا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ دھار ریاست کے پرمار راجہ بھوج کو جلد کی بیماری ہو گئی تھی، جو بہت علاج کروانے پر بھی ٹھیک نہیں ہوئی تبھی ایک مہاتما نے ان سے کہا کہ وہ ایک ایسا حوض بنوائیں جس میں 365 پانی کے چشمے آ کر ملتے ہوں تو بیماری ٹھیک ہو جائے گی۔ راجہ کے ملازمین نے معلوم کیا کہ بیتوا ندی کے کنارے ایک ایسی وادی ہے جس میں 356 تلیا، ندی اور جھرنوں کا پانی آتا ہے لیکن یہ تعداد مہاتما کی تعداد سے کم تھی ۔ تب کالیا نامی ایک گونڈ آدیواسی نے راجہ کو ایسی ندی کی جانکاری دی جن میں کئی معاون ندیاں آ کر ملتی تھیں ۔ کہتے ہیں اسی سنت کے نام پر ندی کا نام کلیا سونت پڑا اور اسے وادی سے جوڑنے کا نظم شروع ہوا۔ کہتے ہیں کہ راجہ بھوج اس حوض میں نہا کر اپنی بیماری سے شفا یاب ہو گئے۔ راجہ بھوج کے ذریعہ تعمیر عظیم تالاب ’بھوج پالا‘ کی وجہ سے ہی اس شہر کا نام دھیرے دھیرے ’بھوج پال ‘اور بعد میں ’بھو پال ‘ہو گیا۔ 1963 میں بھد بھدا پر ایک باندھ بنا کر بڑے تالاب کے آبی ذخیرہ کی صلاحیت کوبڑھایا گیا۔ تقریباً ہزار سال پرانے اس تالاب کو گزشتہ 4 دہائی کے دوران بھوپال کی غیر منصوبہ بند شہرکاری کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
بڑے تالاب سے متصل چھوٹے تال کی تعمیر1694 میں نواب چھوٹے خان کے ذریعہ بان گنگا پرایک باندھ بنوا کر کی گئی تھی۔ بڑے تالاب کی آبی توسیع کا علاقہ تقریباً 31 مربع کلو میٹر ہے۔ جب کہ چھوٹے تالاب کاآبی توسیعی علاقہ صرف 1.29 مربع کلومیٹر ہے۔ ان تالابوں کی اوسطاً گہرائی 6 میٹر ہے۔ کچھ مقامات پر گہرائی 11 میٹر ہے۔ بڑے تالاب میں تقریباً 361 مربع کلو میٹر علاقے سے پانی جمع کیا جاتا ہے اور اس کی آبی ذخیرہ اندوزی صلاحیت1160 لاکھ مکعب میٹر ہے۔کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان دونوں تالابوں پر جدیدیت کے وہ سبھی ہتھیار آزمائے گئے جن سے ان کی حقیقی شکل اس میں پانی کاداخلی راستہ تباہ ہو گیا۔ بڑا تالاب آج بمشکل 9 کلو میٹر کے دائرے میں رہ گیا ہے ۔ اس کے 65 فیصد کناروں پر بستیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی گندگی اس میں گرتی ہیں اس کے علاوہ آس پاس کے گائوں میں رہنے والے لوگ اس میں کپڑے دھونے ، جانور نہلانے وغیرہ کے کام بھی کرتے ہیں۔ کمل گٹے، سنگھاڑے کی کھیتی وہ بھی جراثیم کش ادویہ کے ساتھ اس تالاب میں کی جاتی ہے جس نے اس کی صحت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی پابندی اور منع کرنے کے بائوجود مختلف تہوارں پر دیوی دیوتائوںکی مورتیاں ان تالابوں میں وسرجن کی جاتی ہیں۔
حال ہی میں پرانے بھوپال کو نئے شہر سے جوڑنے کیلئے بنائے جارہے کیبل اسٹے پل کے ستونوں اور اس پر کام کرنے کیلئے 20 فٹ چوڑی اور 300 فٹ لمبی سڑک بنا دی گئی۔ حالانکہ این جی ٹی کی سخت ہدایت ہے کہ تالاب کے 50 میٹر کے دائرے میں کوئی تعمیر نہ ہو ۔ اس سڑک اور ستونوں کا اثر بھی دکھائی دے رہا ہے اور 2 سال میں ہی تالاب کا پانی کملا پارک کے باندھ سے 25 میٹر دور چلا گیا ۔ وہیں این جی ٹی میں سرکار نے چھوٹے تالاب کے پانی کو ڈی گریڈ یعنی کسی کے بھی استعمال کے لائق نہیں قرار دیا ہے۔
اصل میں دونوں تالابوں کی صحت اور پانی کا توازن بنائے رکھنے کے لیے ان کے بیچ ایک نہر ہوا کرتی تھی۔ کملا پارک پر بنے اردن باندھ کمزرو ہونے پر بڑے تالاب پر ایک تحفظاتی دیوار کھڑی کی گئی تھی ۔ تب اس نہر کی دیوار پر لوہے کی مضبوط جالی و پتھر لگا کر بند کیا گیا تھا ۔ اگر نہر کھلی ہوتی تو بڑے تالاب کا 150 کیوسک پانی چھوٹے تالاب میں جاتا اور اس سے شہر میں بھرے پانی سے کچھ راحت ملتی۔ ابھی بھی وقت ہے، بھوپال کو اسمارٹ سٹی نقشہ تیار کرنے والے سب سے پہلے یہاں کے روایتی آبی اسٹرکچرکے آبی داخلی راستے و ایڈیشنل پانی کی نکاسی کے روایتی طریقوں کو سمجھیںاس سے قبضے ہٹائیں تو مان لیں کہ بھوپال میں اگر اس سے دوگنے بھی بادل برسیں تو سڑک پر دریا نہیں بنے گا۔
[email protected]