بین الاقوامی سائنسی تعاون اور عالمی امن کو نئی سرد جنگ کا خطرہ

0

صبیح احمد

یوکرین پر روسی حملے کے اثرات عالمی سطح پر تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ اثر توانائی کے شعبے پر پڑ رہا ہے۔ توانائی کی طلب میں اضافہ کے امکانات کے باعث گزشتہ ہفتہ تیل کی قیمتوں میں ایک ڈالر تک کا اضافہ ہوگیا جبکہ عالمی بازار میں موجودہ مانگ کے مطابق قیمت میں مزید اضافہ کا کوئی امکان نہیں تھا۔
یوروپ میں روسی گیس کے بائیکاٹ اور اس کی سپلائی میں کمی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کے معاشی اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ اس حوالے سے جو انڈسٹریز سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں، ان میں کھادبنانے، زرعی، گوشت اور دیگر مصنوعات کو فریز کرنے والی صنعتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان مصنوعات کو مارکیٹ تک پہنچانے کیلئے استعمال ہونے والے ٹرانسپورٹ، اسپتالوں میں آپریشن کے لیے استعمال ہونے والی گیس، سافٹ ڈرنکس اور بیئر بنانے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ توانائی وسائل کی سپلائی میں کمی اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث ناروے میں موجود دنیا کی سب سے بڑی کھاد بنانے والی کمپنی ’یارا‘ نے اپنی پیداوار 50 فیصد تک کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ اور پولینڈ کی کھاد بنانے والی کمپنیوں نے بھی گزشتہ ہفتہ عارضی طور پر پیداوار روکنے کا اعلان کیا تھا جس کے باعث یوروپ میں زرعی پیداوار میں کمی کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پولینڈ کی ایک بڑی بیئر بنانے والی کمپنی نے بھی اپنی پیداوار فوری طور معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس صنعت کی دوسری کمپنیاں بھی انہی خطوط پر سوچ رہی ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ پیداوار میں کمی کے سبب چھوٹے بار اور پب متاثر ہوں گے کیونکہ جب ان کے پاس فروخت کرنے کیلئے اشیا ہی دستیاب نہیں ہوں گی تو وہ کیا کریں گے؟ ادھرکچھ ماہ سے پائپ لائن کے ذریعہ روسی قدرتی گیس کی برآمدات بند کیے جانے کے بعد گیس کو بڑے پیمانے پر جلاکر ضائع کرنے کی رپورٹ ہے جس سے آرکٹک کی برف کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے۔ ہر روز تقریباً 4.34 ملین کیوبک میٹر گیس جلائے جانے کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار اور اس سے پیدا ہونے والی سیاہی کے بارے میں فکر مند ہیں جو آرکٹک برف کے پگھلنے میں اضافہ کر سکتی ہے۔
جہاں اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا سیاسی، سماجی، اقتصادی طور پر اثر انداز ہو رہی ہے، وہیں بین الاقوامی سائنسی تعاون پر بھی اس کے بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران یہ تعاون اپنی بلندیوں پر تھا۔ لیکن اب یہ تعاون اگر ختم نہیں ہوا ہے تو کم از کم اس میں توقف ضرور آ گیا ہے۔ 1991 میں سرد جنگ کے خاتمہ کے فوراً بعد والے برسوں میں بڑے پیمانے پر روسی سائنسدانوں نے ریسرچ کے کاموں کے لیے یوروپ اور امریکہ کا رخ کیا تھا۔ اسی دوران ’اسپیس اسٹیشن فریڈم‘ امریکی صدور جارج ایچ ڈبلیو بش اور بل کلنٹن کی کوششوں سے ’انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن‘ میں تبدیل ہوگیا جس میں بطور پارٹنر کناڈا، جاپان، یوروپی ممالک اور روس کی بڑی خدمات کا عمل دخل رہا۔ 1993 سے 1996 کے درمیان ایٹمی توانائی کی ذمہ دار روسی ایجنسی نے ’پارٹیکل فزکس‘ کے لیے یوروپین لیباریٹری جسے ’سرن‘ (CERN) کے طور پر جانا جاتا ہے، کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیا اور ’لارج ہیڈرون کولائیڈر پروجیکٹ‘ میں رقومات، آلات اور دماغی طاقت (ذہانت) سے تعاون کیا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف بین الاقوامی سائنسی پروجیکٹوں میں روسی سائندانوں نے بھرپور تعاون دیا۔ لیکن اب روس نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ 2024 کے بعد اسپیس اسٹیشن میں اپنی شراکت داری کو ختم کر دے گا اور ’سرن‘ اسی سال یعنی 2024 میں روس کے ساتھ اپنے معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے بعد روسی اداروں کو کولائیڈر تجربوں (ذرات کو ٹکرانے کا تجربہ) میں شراکت کی اجازت نہیں دے گا۔ یوروپین اسپیس ایجنسی نے اپنے مجوزہ ’ایکسومارس روور‘ پروجیکٹ سے روس کو باہر کر دیا ہے۔ جرمنی میں واقع ایکسرے لیزر پروجیکٹ جسے یوروپین ایکس ایف ای ایل کہا جاتا ہے، کی حمایت میں روس کی کوششوں کے باوجود اب کوئی نیا تجربہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سے سائنسی ریسرچ اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے اور مہنگے بین الاقوامی پروجیکٹس ہی واحد راستہ ہیں جن سے بہت سارے شعبوں میں سرحدوں کی بندشوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب کوئی بھی ملک تنہا صرف اپنے دم پر اتنے بڑے بڑے سائنسی ریسرچ کے پروجیکٹوں کے لیے خاطر خواہ معاشی اور دانشورانہ وسائل کا انتظام نہیں کر سکتا۔ روس انٹرنیٹ اور ویب کے ذریعہ گتھی ہوئی ’ورلڈ لیباریٹری‘ کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے جس میں اب کناڈا، چین، ہندوستان، جاپان، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور بہت سارے دیگر غیر یوروپی ممالک شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان بڑے بڑے پروجیکٹوں سے روس کی علیحدگی کی وجہ سے سائنسی ترقی کی راہیں مسدود ہوسکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ وسیع تناظر میں بین الاقوامی تعلقات میں بھی دراڑ پیدا ہو سکتی ہے۔ حالانکہ لیبس، دفاتر اور کیفیٹیریا میں انگریزی اور فرانسیسی زبانیں عام ہیں لیکن بڑے پیمانے پر تکنیکی تبادلوں اور بہتر کھانوں کے درمیان قومی اختلافات کی برف پگھلنے لگتی ہے۔ بہرحال جب ان شراکت دار ملکوں میں سے کوئی ملک وحشیانہ طریقے سے دوسرے پر حملہ کرتا ہے تو یہ سائنسی دوستی یا قربت تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے پہلے ماہ کے دوران ہزاروں روسی سائنسدانوں نے اپنے کریئر اور روزی روٹی کو دائو پر لگا کر اس حملہ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عرضی پر دستخط کیے تھے۔ بلا شبہ انفرادی رشتوں کی بنیاد پر کچھ روسی سائنسدانوں کے ساتھ اشتراک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ دانشورانہ لین دین یقینا بہت بیش قیمتی ہیں۔ انہیں ہر حال میں جاری رکھا جانا چاہیے۔ لیکن فی الحال جو صورتحال ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ دیگر بڑے سائنسی پروجیکٹوں سے الگ ہونے کا یہ سلسلہ آگے بھی جا ری ہے گا جو عمومی طور پر بین الاقوامی رشتوں کے حوالے سے بہت تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اور یہ عالمی نظام میں نئے سرے سے انتشار کا بد بختانہ پہلو ہوگا، ٹھیک اسی طرح جیسا کہ سرد جنگ کے دوران ہوا تھا۔ امید کے ساتھ ساتھ کوشش بھی کی جانی چاہیے کہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران جو مضبوط سائنسی رشتہ قائم ہوا ہے وہ برقرار رہے اور مشرق و مغرب کے درمیان وسیع پیمانے پر بہتر رشتوں کے قیام میں مدد کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS