ہندوتو اور قوم پرستی کیلئے لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

رام مندر تحریک،ہندوتو کی سیاست اور قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے بی جے پی کے سابق صدر لال کرشن اڈوانی(96) کو ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ دے کر مودی حکومت نے پارٹی کواِس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے کا قرض اُتار دیا۔ 2019 میں یہ اعزازسابق وزیراعظم اَٹل بہاری واجپئی کو دیا گیا تھا۔ اڈوانی یہ اعزاز پانے والے بی جے پی کے دوسرے، بطورسیاسی رہنما32ویںاور کل جمع50 ویں شخصیت ہیں۔لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا کی ’رام رتھ یاترا‘کے ذریعہ ہندوؤں کومتحد کیا۔یہ رتھ یاترا کا ہی کمال تھا کہ ہندوستانی سیاست میں نہ صرف ہندوتواورقوم پرستی کو داخلہ ملا،بلکہ5صدیوں سے حاشیے پرپڑا رام مندر کا مدعا بھی سیاست کا مرکز بن گیا۔’ اَپوزیشن محاذ‘ کے زیادہ تر رہنماؤں نے اسے عام انتخابات کے ووٹوں سے جوڑ کر دیکھا۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے اڈوانی جی کو ’بھارت رتن‘ دینے کو سراہا۔پی ایم مودی نے کہا کہ انہوں نے اڈوانی جی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اُنہیں ’بھارت رتن‘ سے نوازنا اُن کے لیے جذباتی لمحہ ہے۔جے پی نڈا، راج ناتھ سنگھ، نتن گڈکری،انوراگ ٹھاکر،ڈاکٹر موہن یادو،شردپوار اور اروند کجریوال نے ایوارڈ کی تعریف کی۔
لال کرشن اڈوانی کی پیدائش 8نومبر 1927 کو پاکستان کے شہر کراچی میں ہوئی۔ اُنہوں نے 1936 سے 1942تک کراچی کے سینٹ پیٹرکس اسکول میں تعلیم حاصل کی۔1944میں کراچی کے مینڈل ہائی اسکول میں بطور ٹیچر کام کیا۔ تقسیم کے بعدستمبر1947میں اڈوانی کا خاندان کراچی سے جودھپور آیا اور وہاں29روز گزارکر ممبئی پہنچا۔ 1942میں14برس کی عمر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے جڑے،لیکن سیاسی سفر1951سے شروع ہوا۔ اُنہوں نے طویل عرصے تک سنگھ کے پرچارک، صحافی اور 1970سے1972تک ’جن سنگھ‘ اکائی کے صدر کے طور پر کام کیا۔ 1986 میں پارٹی صدر بنے اور طویل مدت تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اُنہوں نے دین دیال اُپادھیائے اور اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ کام کیا اور اہم ذمہ داریاں سنبھالیں۔25جون1975کو وزیراعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعداپوزیشن رہنماؤں کوگرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔اندرا گاندھی نے ماحول سازگار سمجھ 1977میں عام انتخابات کرائے۔ رہا ہوئے اپوزیشن رہنماؤں کے نئے محاذ’جنتادل‘کی الیکشن میں شاندار جیت ہوئی۔ پہلی غیر کانگریسی حکومت میں مرارجی ڈیسائی وزیراعظم بنائے گئے۔ سرکار اپنی مدت پوری نہیں کر پائی اور بھان متی کے کنبے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی۔ جن سنگھ کی علیحدگی کے بعد 6اپریل 1980 کو نئی جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ بنی۔ انتخابی نشان’کمل‘تجویز کیا گیا۔ 1984میں پہلی مرتبہ پارلیمانی الیکشن لڑا۔ بی جے پی کو صرف2سیٹ ملیں۔ آندھرا پردیش کے ہنام کوڑا سے چندو پاٹیا ریڈی اورگجرات کی مہساڑا سے اے کے پٹیل فتحیاب ہوئے۔ واجپئی اور اڈوانی الیکشن ہار گئے۔ 1989میں بی جے پی 2سے 86 نشستوں پر پہنچ گئی۔1990 میں اڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کے مدنظر سومناتھ سے ایودھیا کی ’رام رتھ یاترا‘ نکالی۔1991میں پھر ہوئے الیکشن میں بی جے پی کو120 سیٹیں ملیں۔’رام رتھ یاترا‘ کے علاوہ اڈوانی نے جنا دیش یاترا، سورن جینتی رتھ یاترا، بھارت اُودے یاترا، بھارت سرکشا یاترا اور جن چیتنا یاترا بھی نکالیں۔بہار میں وزیراعلیٰ لالو پرساد یادوکے رتھ یاترا روکنے سے نالاں ہندو طبقہ کھل کر سامنے ہی نہیں آیا،بلکہ ہر کسی کی زبان پر ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ بھی گونجنے لگا۔ رام لہر کے دوران 1990میں بی جے پی کی اتر پردیش میںاپنے دم پرپہلی مرتبہ حکومت قائم ہوئی۔ 1989 میں اڈوانی ملک کے وزیر داخلہ بنے۔ 1996میں بی جے پی کی قیادت میں بنی این ڈی اے کی سرکار صرف 13دن اور1998 میں 13 مہینے چلی،لیکن 1999میں بنی حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔وہ 1998 سے 2004تک ’این ڈی اے‘ سرکار میں وزیرداخلہ اور 2002سے 2004 تک اٹل بہاری واجپئی حکومت میں نائب وزیراعظم رہے۔وہ نائب وزیراعظم کے عہدے پر 7ویںڈپٹی پرائم منسٹر تھے۔ اڈوانی 5مرتبہ پارلیمنٹ کے ’ ایوان زیریں‘ اور 4مرتبہ ’ایوان بالا‘ کے رکن،3مرتبہ پارٹی کے قومی صدر، مرار جی ڈیسائی سرکار میںوزیر اطلاعات و نشریات اوراٹل بہاری واجپئی حکومت میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم رہے۔ اُنہیں2015 میں دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ’پدم وبھوشن‘سے بھی نوازا گیا۔
’بھارت رتن‘ ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔یہ کسی بھی شعبے میں طرز عمل اور اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز سیاست، فن، اَدب وسائنس کے میدان میں کسی مفکر، سائنسداں، صنعت کار،ادیب اور سماجی کارکن کو دیا جاتا ہے۔ ’بھارت رتن‘ کی شروعات ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے 2جنوری 1954 کو کی تھی۔ اسے سب سے پہلے ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل چکرورتی راج گوپالاچاری، سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن اور سائنٹسٹ ڈاکٹر چندر شیکھر وینکٹ رمن کو دیا گیا۔ انسانی کوشش کے کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کے لیے وزیراعظم کسی ہندوستانی کے نام کی سفارش صدر سے کر سکتے ہیں۔ ایوارڈ کا اعلان 26جنوری کو ہوتاہے۔ سال میں 3ہستیوں کو ایوارڈ دیا جاسکتا ہے۔ یہ اعزاز ہر برس دینا ضروری نہیں ہے۔ ایوارڈ میں سرٹیفکیٹ اور میڈل دیاجاتا ہے۔ تمغے میں تانبے کی بنیاد پر پیپل کا پتا اور درمیان میں پلیٹنم کا چمکتا سورج بنا ہوتا ہے۔ پتے کا ڈنٹھل پلیٹنم کاہوتا ہے۔ اس کے نیچے چاندی میں ’بھارت رتن‘ کندہ رہتا ہے۔اعزاز حاصل کرنے والے شخص کوکوئی رقم نہیں دی جاتی۔ صرف سرکاری سہولتیں ملتی ہیں۔ ہوائی جہازاور ریلوے میں مفت سفرکی سہولت ہوتی ہے۔ ملک میں سرکاری مہمان کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ریاستی حکومتیں استقبالیہ،ٹرانسپورٹ اور رہائش کے انتظامات کرتی ہیں۔سفارتی پاسپورٹ دیا جاتا ہے۔ سیکورٹی چیک میں رعایت ملتی ہے۔ سرکاری پروگراموں میں استعمال وارنٹ آف پریزیڈنس کا خصوصی استحقاق ملتا ہے۔ گزشتہ10برسوں میں مودی حکومت نے 7شخصیات کو یہ اعزازدیا۔اڈوانی سے قبل یہ اعزاز کرپوری ٹھاکر، مدن موہن مالویہ، اٹل بہاری واجپئی، پرنب مکھرجی، بھوپین ہزاریکا اور نانا جی دیش مکھ کو دیا جا چکا ہے۔4کو یہ اعزاز بعداز مرگ دیا گیا۔
لال کرشن اڈوانی کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت میں اپوزیشن کا بڑا چہرہ ہونے کے علاوہ 2009 میں وزیراعظم عہدے کے مضبوط دعوے دار تھے۔ اسی دوران سشماسوراج سمیت کئی دیگر رہنماؤں کی بہتر کارکردگی کے ساتھ اپوزیشن کے چہرے کے طور پر جگہ بنانے سے لال کرشن اڈوانی کی سیاسی چمک ماندپڑنے لگی۔2014کے انتخابات میں اچانک نریندر مودی اپوزیشن کے چہرے کے طور پر سامنے آئے۔ بی جے پی نے الیکشن میں کانگریس کو شکست دے کرحکومت سازی کی۔ نریندرمودی وزیر اعظم بنائے گئے۔ لال کرشن اڈوانی آہستہ آہستہ قومی سیاست کے حاشیے پر آکر عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے گئے۔اتنا ہی نہیں 2019کے پارلیمانی انتخاب میں پارٹی نے اُنہیں عمر رسیدہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا ٹکٹ نہیں دیا، لیکن اُنہوں نے پارٹی مفاد میں اس زہر ہلاہل کو آب حیات کی طرح حلق میں اُنڈیل لیا۔ اڈوانی کی سیاست کا آفتاب غروب ہوتے ہی سیاست کے آسمان پر ایک نیا سورج نمودار ہوا،جسے پوری دنیا نریندر مودی کے نام سے جانتی ہے۔ایک ایسا سورج جو گزشتہ 10برسوں سے سیاسی افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔
لال کرشن اڈوانی کو ’بھارت رتن‘ اعزاز دیے جانے پر ’اپوزیشن محاذ‘نے اسے عام انتخابات کے مدنظرووٹوں کے پولرائزیشن کے طور پر دیکھا۔دوسری جانب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے ایک ساتھ کئی نشانے لگائے۔ اسی سال23جنوری کوکرپوری ٹھاکر کو ’بھارت رتن‘ دینے پر کہا گیا کہ یہ ایوارڈ بہار میں ذات پات کی مساوات کے حصول کے لیے دیا گیا۔ایوارڈ کے لیے اڈوانی کے تعاون کو لے کر بھی بحث چل رہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS