عبدالرشیدطلحہ نعمانی ؔ
معروف اسلامی مورخ علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون اپنی کتاب’’تاریخ ابن خلدون‘‘کے مقدمے میں رقم فرماتے ہیں کہ’اجتماع‘انسانی ضرورت ہے یعنی مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہرانسان اپنی ضروریات زندگی کے لیے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج اور معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔جب یہ حقیقت ہے کہ بنی آدم کسی نہ کسی اعتبار سے ایک دوسرے کے محسن و معاون ہیں تو اس احسان کا تقاضا ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ وفاداری اور احسان شناسی کا معاملہ کیاجائے،اس کے تعاون کا اچھا بدلہ دیاجائے،اگر بدلے میں کوئی مادی چیز دینے کی استطاعت نہ ہو تو خلوص دل کے ساتھ دعائے خیر دی جائے اور اپنے قول و عمل سے ہرگز اس طرح ظاہر نہ کیاجائے جس سے احسان فراموشی کی بو آتی ہو۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو،بے شک اللہ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے‘‘(البقرہ:237)۔ دوسری جگہ اپنی نعمتوں کویاددلاتے ہوئے فرماتاہے’’اگر تم اس کا شکر ادا کروگے،تووہ تم سے راضی ہوگا‘‘(الزمر:7)۔حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کے واقعے کے ضمن میں حضرت سلیمان ؑ کی زبانی ارشاد ہوا’’وہ (جن)جس کے پاس کتاب کا علم تھا،اس نے کہاکہ میں(ملکہ بلقیس کے تخت کو)آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا،توجب حضرت سلیمان نے اس عرش کو اپنے پاس دیکھا تو کہا یہ میرے رب کا احسا ن اور فضل ہے،جومجھے آزمانا چاہتاہے کہ میں اس کی نعمت کا شکر اداکرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتاہوں،اور جس نے شکریہ اداکیا،اس نے اپنے لیے کیا اور جس نے کفرانِ نعمت کیا،توبلاشبہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اورکرم فرما ہے‘‘(النمل:40)۔اسی طرح ارشاد فرمایا’’کیا بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے؟‘‘(الرحمن:60)۔
احادیث مبارکہ میںبھی نبی پاک ؐنے قدم قدم پر احسان شناسی کی تعلیم دی ہے اور محسن کی قدرشناسی کو ضروری بتایا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ نبی اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا’’جوشخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتاوہ اللہ کابھی شکرادانہیں کر سکتا‘‘(جامع ترمذی)۔ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا’’جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے اسے پناہ دے دو،جو اللہ کے واسطے سے مانگے اسے دے دو، جو تم سے فریادکرے اس کی مدد کرو، جوتمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس اسے بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تواس کے لیے اتنی دعائیں کروکہ تمھیں لگنے لگے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکادیاہے‘‘(سنن ابوداؤد)۔نبی پاکؐ نے اپنی زبانِ حق شناس سے احسان شناسی کا نہ صرف درس دیابلکہ اپنے عمل اور کردارکے ذریعہ بھی اس کی اہمیت کوموقع بہ موقع اجاگر کیا۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے (اپنے صحابہؓ سے) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہؓنے اس عمر کا اونٹ تلاش کیالیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا (مل سکا) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں(بخاری شریف)۔
حضور پاکؐ جب طائف سے زخمی حالت میں واپس پلٹے تو آپؐ مکہ سے باہر رک گئے کہ قریش جو پہلے ہی دشمن تھے نہ جانے ان کا کیا رد عمل ہوگا۔ جب مکہ میں اطلاع پہنچی تو سرداران مکہ میں سے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ وہ ہتھیار بند ہوجائیں اور جا کر محمد کو اپنی امان میں لے کر گھر پہنچائیں۔ جب وہ آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان کے باپ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میرے لئے اللہ ہی کی امان کافی ہے۔ نبی پاکؐ نے اس سردار کی یہ نیکی زندگی بھر یاد رکھی۔ جنگِ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کی رہائی کی بات کرتا تو میں ان سب کوبلا معاوضہ رہا کر دیتا۔ اسی طرح آپؐ نے فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر جبیر بن مطعمؓ کو اونٹوں سے بھری ہوئی ایک پوری وادی بخش دی (بخاری شریف/اسد الغابۃ)۔ خلیفہ ٔ اول سیدنا صدیق اکبرؓ جو حضور اکرمؐ کے یارغار ہیں،آپؐ ان کے احسانات کا بارہا تذکرہ فرماتے اور یوں کہتے’’کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر کے۔ بے شک اُن کے ہمارے اوپر احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا‘‘(ترمذی شریف)۔
اس وقت مجموعی طور پر دنیا میں جو فساد اور اختلاف برپا ہے،اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ان میں ایک وجہ احسان شناسی کا فقدان ہے۔اگر احسان شناسی طبیعت ثانیہ بن جائے تو پھر نہ خانگی زندگی میں کوئی اختلاف ہو نہ ادارہ جاتی سطح پر کوئی فساد، بلکہ خاوند اپنی بیوی کا احسان شناس ہو اور بیوی اپنے خاوند کی،حاکم اپنے محکوم کا منت شناس ہو اور محکوم اپنے حاکم کا۔اس طرح امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر ہو اور کبھی ناچاقی کی نوبت ہی نہ آئے۔مگر افسوس کہ آج مسلم سماج میں احسان شناسی کی جگہ احسان فراموشی نے لے لی اور ہرسمت اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔شاید اسی لیے اہل عرب کے یہاں مثل مشہورہے کہ’ جس پر تم نے احسان کیا ہو اس کے شر سے بچتے رہو‘ خداجانے کس زمانے میں کہنے والوں نے یہ بات کہی ہو اور کس پس منظر میں کہی ہومگر آج کل توہرجگہ یہی صورت حال ہے۔ حضرت تھانوی ؒ کے بہ قول’’اس زمانہ میں دوستی اور محبت اکثر اغراض کے لیے ہوتی ہے جب تک غرض پوری ہوتی رہی دوست ہیں اور جس دن اغراض میں کمی آئی اس دن سے دشمن ہیں، چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جن لوگوں پر پورا اعتماد تھا کہ یہ دوستی سے کبھی نہ بدلیں گے، وہ بھی اپنے اغراض میں کسی وقت نقصان دیکھ کر بالکل بدل گئے، اور ایسے بدلے کہ دشمن سے بھی بدتر دشمن بن گئے‘‘ (التبلیغ وعظ تقلیل الطعام)۔
احسان شناسی ایک اعلی انسانی صفت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS