شام: بشار الاسد چوتھی مرتبہ صدر منتخب

0
image:dw.com

شام میں پارلیمان کے اسپیکر حمود صبّاغ نے 27 مئی جمعرات کے روز صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد چوتھی بار صدارتی امیدوار کے طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہیں پچانوے اعشاریہ ایک (95.1) فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان انتخابات میں 78 اعشاریہ 66 فیصد ووٹروں نے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
Syrien Präsidentschaftswahlen Bashar Assad

شامی حکومت نے اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا، ”شامی شہریوں اپنی بات کہہ دی ہے۔ شام کے اندر اور ملک کے باہر سے پچانوے اعشاریہ ایک فیصدووٹ حاصل کرنے کے بعد بشار الاسد نے شامی عرب جمہوریہ کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔”

اس بڑی جیت کے ساتھ ہی بشار الاسد کو خانہ جنگی سے دو چار ملک شام میں آئندہ سات برس کے لیے صدارت ایک بار پھر سے مل گئی ہے جبکہ ان کی حکومت کا دعوی ہے کہ ان انتخابات سے واضح ہوتا ہے کہ شام میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔
BG Wahl in Syrien
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں گزشتہ دس برسوں سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً سوا کروڑ شامی باشندے، یعنی ملک کی تقریبا نصف آبادی اس خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے اور بیرون ملک بطور پناہ گزین رہنے پر مجبور ہیں۔

انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات
امریکا اور یورپی ممالک نے ان انتخابات کی جوازپر پہلے ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انتخابات اقوام متحدہ کی قرارداد کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ ان ممالک نے اسد حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں بیان کردہ فریم ورک سے باہر انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں اور شام کی حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت ان تمام شامی
باشندوں کی آوازوں کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا جنہوں نے اس انتخابی عمل کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ ہیں اور نہ ہی منصفانہ۔ ان کے مطابق ان جعلی انتخابات کا اہتمام خود صدر بشار الاسد نے کیا تھا اور اس طرح ایک بار پھر سے انہیں کی جیت بھی یقینی تھی۔
انتخابات میں صرف انہیں علاقوں میں ووٹنگ ممکن ہو پائی جہاں اسد حکومت کا کنٹرول ہے اور بہت سے پناہ گزین جو خانہ جنگی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے وہ بھی اس میں حصہ نہ لے سکے جبکہ بیشتر نے تو اس میں دلچسپی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔
شامی حکام نے ان صدارتی انتخابات میں صرف تین امیدواروں کوحصہ لینے کی اجازت دی تھی جبکہ دیگر درجنوں خواہش مند امیدواروں کو اجازت نہیں دی گئی تھی۔ بشارالاسد کو صرف دو امیدواروں عبداللہ سلوم عبداللہ اور ممنوعہ حزب اختلاف کے ایک دیگر امیدوار محمود احمد سے مقابلہ تھا۔

شام میں سیاسی صورت حال کیا ہے؟
شام میں سن 2011 سے ہی خانہ جنگی کا ماحول ہے جہاں عرب بہاریہ کے بعد سے ہی صدر بشار الاسد کے حامی اور جمہوریت نواز گروپ ان کی فوج سے بر سر پیکار ہیں۔ حزب اختلاف کے اس گروپ میں بعض جہادی تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کی مدد سے باغی گروپوں نے ابتدا میں حمس اور حلب جیسے بڑے علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔
لیکن روسی افواج کی مدد سے اسد کی فوج نے اب ان بیشتر علاقوں پر اپنا کنٹرل دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ حزب اختلاف کے کنٹرول میں اب صرف شام کا شمالی علاقہ ادلب بچا ہے۔ اس لڑائی میں کئی لاکھ شامی اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دسیوں لاکھ بے گھر ہوئے ہیں۔
بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کے جانشین ہیں جن سے انہیں 2000 میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔ بہار عرب کے آغاز کے بعد سے ہی اسد نے حزب اختلاف کے ساتھ بہت ہی سخت رویہ اپنا رکھا ہے اور انہیں دہشت گرد بتا تے رہے ہیں۔

بشکریہ:dw.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS