آج سے پلاسٹک پر پابندی

0

’سب کا ساتھ -سب کا وکاس‘ اور ’ اچھے دن‘ وغیرہ جیسے خوش کن نعروں کی عملی تعبیر سے قطع نظر مرکز کی مودی حکومت نے 8 برسوں میںایک کام ضرور کیا ہے اور وہ ہے سخت ترین فیصلوں کا ۔ نوٹ بندی‘ جی ایس ٹی‘ سرجیکل اسٹرائک ‘ لاک ڈائون وغیرہ جیسے فیصلوں کو راتوں رات نافذ کرکے مودی حکومت نے جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔اب ایسے ہی ریکارڈ ساز فیصلوں میں ایک اور پلاسٹک (سنگل یوز) پر پابندی کافیصلہ بھی شامل ہوگیاہے ۔ یہ فیصلہ یکم جولائی سے ملک گیر سطح پر نافذ ہوجائے گا۔ یکم جولائی 2022 سے پورے ملک میں واحد استعمال والی پلاسٹک کی اشیا کی تیاری‘ درآمد‘ ذخیرہ اندوزی‘ تقسیم‘ فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد ہوجائے گی ۔اس پابندی کی تعمیل نہ کرنے والوں پر بھاری جرمانہ لگایاجائے گا اور بعض معاملات میں سزائے قید کی بھی تجویز ہے ۔
بظاہر یہ فیصلہ ماحولیات دوستی کی طرف اٹھایاگیاایک مثبت قدم ہے ۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ پلاسٹک اور پلاسٹک سے تیارشدہ مصنوعات ماحولیات کوآلودہ کرکے انسانی زندگی پر مضر اثرات کا سبب بن رہی ہیں ۔خاص کر ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک سنگین مسئلہ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔یہ پلاسٹک نہ تو ڈسپوز ہوسکتی ہیں اور نہ جلا کر ہی انہیں معدوم کیاجاسکتا ہے ۔ جلنے کے بعد بھی ان کے زہریلے مادے فضا میں گھومتے ہیں اورسانس کے ذریعہ انسانی جسم میں داخل ہو کر ہزار طرح کی کیمیائی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں۔ ادھر ادھر پھینکی جانے والے پلاسٹک سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے مویشی دوسری خوردنی چیزوں کے ساتھ نگل جاتے ہیں لیکن وہ جزء بدن نہیں ہوپاتی اور نتیجہ میں ان کی موت ہوجاتی ہے ۔انسان اور جاندار کی صحت سے لے کر ٹریفک اور نکاسی تک کے سنگین مسائل میں سنگل یوز پلاسٹک کا بڑا ہاتھ ہے ۔کہایہ بھی جاتا ہے کہ پینے کے پانی کی قلت کی وجہ بھی یہی پلاسٹک بن رہی ہے کیوں کہ پلاسٹک کا کچرا بارش کے پانی کو زمین کے نیچے جانے سے روکتا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے ۔ سنگل یوز پلاسٹک کے خطرات کی سنگینی بتانے کیلئے اعدادوشمار کا حوالہ بھی دیاجاتا ہے ۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ ہر سال40کروڑ ٹن پلاسٹک کچراپیدا ہوتا ہے۔ ہندستان میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک کچڑا بنتا ہے جو نالیوں اور ندیوں سے ہوتے ہوئے سمندر میں چلاجاتا ہے اور اگر ا س کچرے کی رفتاراور تعداد یہی رہی تو 2050تک سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک کے کچرے ہوں گے ۔سروے اور جائزے کی مدد سے ایسی بھیا نک تصویر کھینچی جارہی ہے کہ جیسے یہ پلاسٹک حضرت انسان کی بقا کیلئے چیلنج ہے اور اگر اسے ختم نہیں کیاگیا تو یہ انسان کو ہی ختم کرڈالے گی ۔
اس تناظر میں یکم جولائی سے پلاسٹک (سنگل یوز) پر پابندی لگائے جانے کا فیصلہ مودی حکومت کا ایک مستحسن قدم کہاجاسکتا ہے لیکن مسئلہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ ہے پلاسٹک صنعت سے وابستہ کروڑوں ہندستانیوں کے روزگار کا مسئلہ جو اس پابندی کی وجہ سے پیدا ہوں گے ۔ پلاسٹک مصنوعات چاہے وہ تھیلیوں کی شکل میں ہوں یا سامان کو محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کئے جانے والے پارچہ جات کی شکل میں ہوں ان کی تیاری پر ہی زیادہ تر گھریلو اور مائکرو صنعتوں کی بقاکا انحصار ہے ۔ ہندستان میں پلاسٹک صنعت کی سالانہ معیشت تقریباً60ہزار کروڑ روپے ہے اور یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں ۔اس پابندی کی وجہ سے یہ تمام پیدواری اکائیاں ایک ہی جھٹکے میں بند ہو جائیں گی اور ان سے وابستہ کارکنو ں کے سامنے روزی روٹی کا سنگین ترمسئلہ کھڑا ہوجائے گا ۔اس کے علاوہ یہ صنعت تقریباً 25ہزار کڑوڑروپے کا سامان بھی برآمد کرتی ہیں، پابندی کے بعداس کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا جس سے ریونیو کا پہلو بھی سخت متاثر ہوگا۔سنگل یوز پلاسٹک نہ صرف نجی بلکہ سرکاری اداروں میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ عام دکاندار اور ٹھیلے والے ان ہی پلاسٹک کی تھیلیوں میں لوگوں کو سامان دیتے ہیں اس پر پابند ی کا تمام دبائو ان چھوٹے چھوٹے کاروباریوں پر آئے گاجو اپنے صارفین کو پولی بیگ نہیں دے سکیں گے۔ اس کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔
اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ پلاسٹک ماحولیات کیلئے مسئلہ بنتاجارہاہے ۔ عقل و خرد کا تقاضاتو یہ تھا کہ مرحلہ وار طریقہ سے اس کے استعمال کو کم کرتے ہوئے اس کے متبادل کا انتظام کیاجاتا ہے۔ لیکن ’ سخت ‘ فیصلو ں کا ریکارڈ بنانے والی حکومت نے زخم کا علاج ڈھونڈنے کی بجائے زخم خودرہ اعضا کو ہی کاٹ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ بھی صرف خدشات اور اندیشے کی بنیاد پر۔
یہی وجہ ہے کہ اس صنعت سے وابستہ تنظیمیں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیاٹریڈرس نے اس پابندی کو ایک سال کیلئے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور باقاعدہ ایک کمیٹی بناکر اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کی تجویز دی ہے ۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ تاجروں کے اس مطالبے پر حکومت توجہ دیتے ہوئے اس پابندی کا نفاذ ملتوی کردیتی اور سبھوں کو ساتھ لے کر اس کا متبادل ڈھونڈتی اس کے بعد اگر پابندی لگائی جاتی تو اس کے نقصانات کا ازالہ بھی ہوسکتا تھا۔ بغیر کسی متبادل کے پابندی لاک ڈائون جیسے فیصلہ کی طرح ہی ہزاروں نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS