صدیق کپن کو ضمانت

0

سپریم کورٹ سے کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کوچند ایک شرائط کے ساتھ ضمانت مل گئی ہے۔کاغذی کارروائی کی تکمیل کے بعد وہ رہا ضرور کردیے جائیں گے لیکن اس کے باوجود کپن اپنی آبائی ریاست کیرالہ نہیں جاسکتے ہیںکیوںکہ عدالت نے انہیں اگلے 6 ہفتوں تک دہلی میں رہنے کا پابندکیا ہے۔اس کے بعد اگر وہ کیرالہ جاتے ہیں تو انہیں ہر ہفتہ مقامی تھانہ میں حاضری دینی ہوگی۔ صدیق کپن کو اتر پردیش کی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ5اکتوبر کو متھرا کے راستہ ہاتھرس جارہے تھے۔ ہاتھرس میں ستمبر 2020میں مزدور گھرانے کی ایک 19سالہ دلت لڑکی کی آبروریزی کے بعد اس کی زبان کاٹ کر اوراس کی ریڑھ کی ہڈی کوتوڑ کر قتل کردیاگیا تھا۔واقعہ کی پردہ پوشی کیلئے انتظامیہ کی جانب سے اس کی لاش کو بھی بغیر کسی آخری رسم کے راتوں رات جلادیے جانے سے تنائو پھیلا ہوا تھا اور اترپردیش کی بی جے پی حکومت تنقیدکی زد میں تھی۔ صدیق کپن تین دیگر افرادکے ساتھ اسی وحشیانہ واقعہ کی رپورٹنگ اور صورتحال کا جائزہ لینے جارہے تھے کہ انہیں پی ایف آئی کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میںاس خدشہ کے تحت گرفتار کرلیاگیا تھا کہ وہ ہاتھرس جاکر فساد بھڑکائیں گے۔ لیکن طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی کپن کے خلاف کوئی واضح فرد جرم عائد نہیں کرسکی۔
اترپردیش کی جیل میں بند صحافی صدیق کپن تقریباً2برسوں سے قانونی لڑائی لڑتے رہے۔ان کی درخواست ضمانت نچلی عدالت اور الٰہ آباد ہائی کورٹ سے مسلسل رد ہوتی رہی۔گزشتہ ماہ اگست کی 4 تاریخ کوبھی الٰہ آباد ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت رد ہونے کے بعد کپن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔اس اپیل پر آج چیف جسٹس یویوللت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی دو نفری بنچ نے طویل سماعت کی۔اس دوران استغاثہ کی جانب سے ان کی درخواست ضمانت ردکرانے کی بھر پورکوشش کی گئی۔اترپردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل استغاثہ مہیش جیٹھ ملانی نے کپن کے خلاف الزامات کا طومار باندھا اورقیاس، گمان، امکان اور خدشات کاحوالہ دیتے ہوئے کئی دلیلیں بھی پیش کیں۔وکیل استغاثہ کا سارا زور بیان صدیق کپن کا تعلق پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی) سے جوڑنے پر تھا اور وہ اپنی ہر بات کا رخ اسی جانب موڑ رہے تھے۔ لیکن عدالت کے پیہم اصرار کے باوجود کوئی واقعاتی شہادت پیش نہیںکرسکے نہ کوئی ایسا ثبوت ہی مہیا کرپائے کہ صدیق کپن دہشت گردی کی نیت سے ہاتھرس جارہے تھے۔ عدالت نے ان سے یہ جاننا چاہا کہ آیا گرفتاری کے وقت ملزم (صدیق کپن) کی تحویل سے کوئی دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہواتھا،وکیل استغاثہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس سے ایک شناختی کارڈ اورکچھ لٹریچردستیاب ہوئے تھے۔اس پر عدالت نے وکیل استغاثہ کی تاویلات و موشگافیوںکومسترد کردیااور صدیق کپن کو یہ کہتے ہوئے مشروط ضمانت دے دی کہ ہر شخص کو آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے۔ملزم صدیق کپن کا ہاتھرس جانے کا عمل بھی اسی کا حصہ تھا، وہ یہ بتانے کی کوشش کررہاتھا کہ متاثرہ کو انصاف کی ضرورت ہے اوراس کیلئے آوازاٹھائی جانی چاہیے۔ یہ قانون کی نظر میں کوئی جرم نہیں ہے۔اس دوران عدالت نے نربھیا معاملے میں 2012میں انڈیا گیٹ پر ہونے والے احتجاج کا حوالہ بھی دیا۔
عدالت کے ریمارکس اور حوالہ سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ مظلوم کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو جس طرح سے حکومت گرفتار کررہی ہے، وہ خلاف قانون ہے، ایسے لوگوںکی گرفتاری کا کوئی آئینی جواز نہیںہے۔کسی کے حق کیلئے اس کے ساتھ کھڑا ہونا، انصاف دلانے کی کوشش کرنا، حصول انصاف اور خاطیوں کو سزایاب کرانے کیلئے رائے عامہ ہموار کرنا ہرشہری کا حق ہے او ر اس حق کے استعمال سے کسی کو صرف گمان، امکان اور خدشات کی بنا پر محروم نہیں کیاجاسکتا ہے۔
لیکن صدیق کپن کی گرفتاری کیلئے اترپردیش کی حکومت نے امکان و خدشات کو ہی بنیاد بنایا تھا،تاہم گرفتاری سے اب تک دو برسوں میں بھی ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں کرپائی۔ ایسے ہی امکانات و خدشات کی بنیاد پرصدیق کپن، عمر خالد،سنجے بھٹ جیسے نہ جانے کتنے افراد ملک کی مختلف جیلوں میں پڑے ہوئے رہائی کے منتظر ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ اظہار رائے کواپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کا انسانی فریضہ ادا کرتے ہیں، طاقت اور حکومت کی پروا کیے بغیر ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس قانونی لڑائی میں صحافی صدیق کپن کوجیت حاصل ہوئی ہے۔دم توڑتی جمہوریت کے درمیان کپن کو ملنے والی ضمانت اور عدالتی ریمارکس نہ صرف ایسے معاملات میں گرفتار دوسروں کی رہائی کا راستہ ہموار کریں گے بلکہ جمہوریت کے خلاف بزن بول رہی حکومت کے حوصلوں کو بھی لگام ڈالیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS